Saturday, July 27, 2013

یوم الفرقان، مصر کی سڑکیں مظاہرین سے بھر گئیں، حملوں میں 135 جانبحق 5000 سے زاہد زخمی


اخوان المسلیمون کی جانب سے جمعہ کو یوم الفرقان کے اعلان پر مصر کے مرد وزن گھروں سے نکل آئے۔ شہروں اور قصبوں کی گلیاں انسانوں سے بھر گئیں۔ بڑے شہروں میں کئی کئی لاکھ افراد نے ریلیاں نکالیں اور مطاہرے کیے۔ جس دوران مصر فوج اور لبرل غنڈوں کے حملوں میں 130 سے زاہد افراد جانبحق جبکہ 5000 سے زیادہ شدید زخمی ہو چکے ہیں۔ آخری اطلاعات تک پر امن مظاہرین تمام تر تشدد کے باوجود استقامت سے اپنے دھرنے کے مقام پرجمے ہوئے ہیں اور فوج لبرل غنڈے مظاہرین کو منتشر کرنے میں ناکام نظر آ رہے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق دالحکومت قاہرہ میں جمعہ الفرقان کے موقع پر جمعہ کی نماز میں کئی لاکھ لوگ شریک ہوئے ہیں۔ جن میں سے بڑے اجتماعات میدان التحریر، رابعہ عدویہ اور نصر سٹی میں منعقد ہوئے۔ اس موقع پر نہایت رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے بوڑھے، بچے، جوان اور خواتین پرنم آنکھوں سے دعائیں کر رہے تھے۔ پرامن مظاہرین کی اکثریت نے ہاتھوں میں قران اتھائے ہوئے تھے۔ جبکہ بچوں نے منتخب صدر محمد مُرسی کی تصاویر کے پوسٹر اٹھا رکھے تھے۔

قاہرہ کے علاوہ بڑے مظاہرے اسکندریہ، السویط، منصوریہ اور اسماعلیہ کے شہروں میں کئے گئے جن میں ہر مظاہرے  میں عوتوں اور بچوں سمیت لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ بڑے شہروں کے علاوہ مصر کے تقریباً تمام ہی شہروں اور قصبوں میں منتخب صدر محمد مُرسی کے حق میں مظاہرے کیے جن میں منتخب صدر کی بحالی اور غیرقانونی حکومت کی برطرفی کا مطالبہ کر رہے تھے۔

جمعہ الفرقان کے موقع پر فوجی سربراہ جنرل عبدالفتح السیسی کے پہلے سے اعلان کردہ منصوبے کے تحت فوجی اہلکاروں اور لبرل غنڈوں نے پر امن مظاہرین پر آتشیں اسلحے سے حملے کیے ہیں جن میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق 130افراد جانبحق اور 5 ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں جن میں ایک بڑی تعداد شدید زخمیوں کی ہے۔ مظاہرین کی اکثریت گولیاں لگنے اور شدید ضربات کے نتیجے میں بانبحق اور زخمی ہوئے ہیں۔

فوج اور لبرل غنڈوں کے حملے کا آغاز فوج کی جانب سے نامزد غیر قانونی وزیر داخلہ محمد ابراہیم کے سرکاری ٹی وی چینل الاہرام پر اس اعلان کے بعد ہوا جس میں اس نے کہا کہ ’’ایک ماہ سے جاری مرسی کے حامیوں کے دھرنے کو جلد از جلد ختم کیا جائے گا۔‘‘

اس اعلان کے فوری بعد فوجیوں نے لبرل غنڈوں کی معیت میں شمالی قاہرہ میں رابعہ عدویہ کے مقام پر اخوان المسلمین کے حامیوں کے ایک ماہ سے جاری دھرنے کو توڑنے کے لئے پر امن مظاہرین پر حملہ کر دیا۔ جس میں پر امن مظاہرین پر سیدھی گولیاں چلائی گئیں، آنسو گیس کے شیل فائر کیے گئے جبکہ ڈنڈوں اور آئینی راڈوں سے مسلح غنڈوں نے مظاہریں کو تششد کا نشانہ نبانا شروع کر دیا۔

حملے کی شدت اس قدر زیادی تھی کہ اخوان المسیلمون کے حوالے سے متعصب خبریں دینے والے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی  کی مصر میں جائے وقوع پر موجود خاتون نامہ نگار کوئنٹین سمرویلے نے اپنے ابتدائی مراسلے میں کہنے پر مجبور ہو گئی کہ  قاہرہ میں ربعہ الاداویہ مسجد کے قریب جنگ جاری ہے اور سڑکیں مظاہرین کے خون سے رنگین ہو گئیں ہیں۔

اخوان المسلیمون کی سیاسی جماعت  انصاف اینڈ جسٹس پارٹی کے سنٹرل ایگزیکٹو کونسل کے ممبر اور رابعہ العدویہ فیلڈ ہسپتال کے سربراہ ڈاکٹر محمد البلتاجی نے میڈیا کو دیے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’’ہم گزشتہ شب سے خون اور باردو میں کھڑے ہیں اور اخوان المسلمون کے پرامن مظاہرین کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ جامعۃ الازہر پر چاروں طرف سے گولیوں کی بوچھار کی جا رہی ہے جو نسل کشی کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ ہر طرف لاشیں ہی لاشیں ہیں۔ صرف چھ سات گھنٹوں میں 100 سے زائد شھید کر دئیے گئے ہیں اور 5000 کے قریب زخمی ہیں-

انہوں نے مصر کے تمام اسلام پسند اور انسانیت کا درد رکھنے والے ڈاکٹروں سے اپیل کی ہے کہ وہ جتنی جلد ممکن ہو میدان رابعہ فیلڈ ہسپتال میں پہنچ جائیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں سرجری، اینستھیزیا اور نیولوجیکل ایکسپرٹ کی اشد ضرورت ہے کیوں کہ یہاں زخمیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جن میں سے کئی ہزار شدید خطرے کی حالت میں ہیں اور انہوں نے خون کے عطیات دینے کی بھی اپیل کی ہے کیوں کہ بقول انکے زخمیوں کی بڑی تعدار کی وجہ سے خون کی اشد کمی واقع ہو چکی ہے۔

دوسری جانب مصر کے دوسرے بڑے شہر

ت میں بھی مخالف مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں سرکاری زرائع کے مطابق کم از کم سات افراد زخمی ہوگئے ہیں۔

آخری اطلاعات تک مظاہرین اپنی جگہ جمے ہوئے ہیں۔ فوج اور لبرل غنڈوں کی جانب سے تمام تر تشدد کے باوجود دھرنے کو ختم نہیں کرایا جا سکا ہے۔