Friday, August 23, 2013

امریکہ کا ناپسندیدہ حکومتوں کو گرانے کا طریقہ کار کیا ہے؟ سی آئی اے کی خفیہ دستاویز سامنے آگئی

امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی طرف سے جاری کی گئی دستاویزات میں ایران کے منتخب وزیر اعظم ڈاکٹر محمد مصدق کی حکومت کے خلاف پیسے دے کر ریلیاں منعقد کرنے اور پھر فوج کے ساتھ مل کر سازش کے تحت تختہ الٹنے کا اعتراف کیا گیا ہے۔ اس دستاویز کے مندرجات اس لئے بہت اہم ہیں کیوں کہ یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ کی جانب سے کسی اسلامی ملک میں کی جانے والی پہلی بڑی کاروائی تھی۔ اس کے بعد امریکہ نے مسلمان ممالک کے اندر درجنوں ایسی کاروائیاں کی ہیں اور مسلسل کی جارہی ہیں جن میں حکومتوں کی تبدیلی عمل میں لائی گئی۔
ڈاکٹر مصدق کی گرفتاری کا منظر

جارج واشنگٹن یونیورسٹی کی نیشنل سکیورٹی آرکائیوز کی ویب سائیڈ پر شائع کی گئی یہ دستاویز سی آئی اے کی داخلی تاریخ سے متعلق ہیں جن کی تدوین 1970 کے وسط میں کر کے انہیں محفوظ کیا گیا تھا۔ ان دستاویزات کے سامنے آنے سے پہلے تک امریکی خفیہ ادارے اس بغاوت میں امریکی  ایجنسیوں کے کردار کی مکمل نفی کرتے رہے ہیں۔ لیکن اب پہلی بار ہے کہ امریکی سی آئی اے نے ایرانی عوام کی منتخب حکومت کے خلاف ہونے والی اس سازش میں اپنے اور برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس کے کردار کا واضح اعتراف کیا ہے۔ اس دستاویز کے مندرجات کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کامیاب کاروائی کے بعد کی جانے والی تمام کاروائیاں اس کا چربہ ہیں۔

دستاویزات کے مطابق 21 جولائی 1952 کو جمہوری طور پر وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد ڈاکٹر مصدق نے قومی مفاد کو دیکھتے ہوئے ایران سے تیل نکالنے کی اجاراداری رکھنے والی اینگلو ایرانین آئل کمپنی کے ساتھ تیل کی فروخت سے حاصل ہونے والے منافع کو ایران کے ساتھ برابر تقسیم کرنے کیا تھا۔ یاد رہے کہ اس وقت ایران کے تیل والی زمین کے مالکان کو منافع کا بیس فیصد ملا کرتا تھا۔ مصدق کے اس مطالبے کی وجہ سے تیل کی بین القومی مافیا اور اس کی وساطت سے برطانیہ اور امریکہ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ کیوں کہ برطانیہ اور امریکہ جنگِ عظیم میں ہونے والی تباہی کے اثرات کے سے نکلنے اور تعمیر نو کے لئے مشرق وسطیٰ کے تیل کی فرخت سے ہونے والی امدن پر انحصار کر رہے تھے۔ 

اُس وقت کے وزیر دفاع امینویل شینوویل نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اینگلو ایرانی کمنیوں کا نقصان پورے مشرق وسطٰی میں برطانیہ کے اثر و رسوخ پر برا اثر ڈالے گا۔ اپنے بیاب میں اس نے کہا کہ " اگر فارس ہاتھ سے نکل گیا تو مصر اور مشرق وسطٰی کے دوسرے ملک فیصلہ کریں گے کہ انہیں بھی مصدق کے نقش قدم پر چلنا چاہیے۔ اس سلسلے کا دوسرا بڑا قدم مصر کی جانب سے نہر سویز کو قومی ملکیت میں لینا ہو سکتا ہے" 
سی آئی اے کے پیسے سے منعقدہ مظاہرہ جس میں فوج بھی شامل تھی

اس موقع پر فوری طور پر برطانیہ کے تعاون سے اُس وقت کے امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ ایلن ڈیلس نے ایرانی عوام کی منتخب کردہ مصدق کی حکومت کو گرانے کی سازش کا منصوبہ تیار کیا۔ سازش کے اس منسوبے کو "اجیکس" کا خفیہ نام دیا گیا تھا۔  برطانوی اور امریکی خفیہ ایجنسیوں کے تیار کردہ سازشی منصوبے کے تحت شاہ ایران علی رضا شاہ پہلوی نے ایک شاہی فرمان کے زریعے منتخب وزیراعظم ڈاکٹر مصدق کو برطرف کر دینا تھا۔ لیکن قبل از وقت بھانڈا پھوٹ جانے کی وجہ سے یہ سازش ناکام ہوگئی۔
 سازش کی ناکامی کے بعد مصدق حکومت نے اس افسر کو گرفتار کر لیا جس نے سی آئی اے کی معاونت سے مصدق کی برطرفی کے حکم کا مسودہ تیار کیا تھا۔ سازشی منصوبہ سامنے آنے پر ایرانی عوام کا سخت ردعمل سامنے آیا۔ دارلحکومت کی سڑکیں عوام  سے بھر گئیں۔ لوگوں نے تہران کے چوکوں میں نصب شاہ کے باپ کے مجسمے گرا دیے۔ شاہ محمد رضا پہلوی اس صورتحال سے خوفزدہ ہو کر ملک سے فرار ہو گیا۔ یہ امریکہ اور برطانیہ کے لئے بہت بڑا دھچکہ تھا۔ جس سے اندیشہ پیدا ہو گیا کہ شاہد خطے پر استعماری اثرات کا خاتمہ ہو جائے گا۔
امریکہ کے اس وقت کے ڈپٹی سیکریٹری آف سٹیٹ والٹر بیڈیل سمتھ نے صدر امریکہ آئزن ہاور کو فوری طور پر اطلاع دی کہ مصدق حکومت کے خاتمے کے لئے کیا جانے والا آپریشن اجیکس" ناکام ہو گیا ہے۔ اس نے امریکی صدر کو بتایا کہ  ہمیں ایران کے حالات کو نئے سرے سے دیکھنا ہوگا اور اگر وہاں امریکی اور برطانوی مفادات کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں مصدق کے حامیوں کو "پروں تلے کُچلنا پڑے گا"۔
سی آئی اے کا مہرہ جرنل فضل اللہ زاہدی
امریکی صدر کی  جانب سے طاقت کے استعمال کی منظوری کے بعد نے "آپریشن اجیکس 2" تیار کیا گیا۔  سی آئی اے نے فیصلہ کیا کہ ایرانی فوج کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا کیوں کہ امریکی اور برطانوی خفیہ اداروں نے جان لیا تھا کہ فوج کی خدمات حاصل کیے بغیر حکومتوں کے خلاف ہونے والی کسی سازش کا کامیاب ہونے بہت مشکل ہے۔ یوں ایرانی فوج کے جرنل
فضل اللہ زاہدي کو منتخب حکومت پر شب خون مارنے کی سازش میں شامل کیا گیا۔ جس کے لئے دیگر ترغیبات کے کے علاوہ جرنل زاہدی کو ڈاکٹر مصدق کی جگہ ایران کا وزیر اعظم بنانے کا وعدہ بھی کیا گیا تھا۔
سی آئی اے نے ایرانی جرنل سے معملات طے پانے اور سازش کی تفصیلات پر اتفاق ہونے کے بعد پہلے مرحلے میں بڑے پیمانے پر  وزیراعظم مصدق کی مخالفت میں خبریں مختلف ایرانی اور امریکی اخبارت اور ریڈیو پر چلانا شروع کر دیں۔ جس کے بعد باقاعدہ معاوضے پر ایران کے جرائم پیشہ افراد کی خدمات حاصل کی گئیں اور ان کی مدد سے ڈاکٹر مصدق کے خلاف اور شاہ کی حمایت میں مظاہرہ کرانے کا اہتمام کیا گیا۔
 
مصدق کے خلاف نکلنے والے جلوس میں ابتدائی طور پر افراد کی شرکت مایوس کن حد تک کم تھی۔  اس موقع پر  طے شدہ منصوبے کے تحت پولیس کے افسروں اور سپائیوں نے اس جلوس کو روکنے اور منتشر کرنے کے بجائے ان کے ساتھ  شمولیت اختیار کرنا شروع کر دی۔ بعد ازاں ایرانی فوج کے اہلکار بھی جلوس کا حصہ بن گئے۔ یوں شاہ کے حق میں نکلنے والا ایک چھوٹا سا جلوس یک لخت انتہائی پرہجوم ہو گیا۔
مصدق کی زندگی کے آخری ایام
  جب وہ گھر پر نظر بند تھے
ایک طرف یہ جلوس تہران کی سڑکوں پر رواں دواں تھا جبکہ دوسری طرف جرنل فضل اللہ زاہدي کي کمان ميں فوج کے دستوں نے  وزير ا‏عظم ہاؤس کا گھیراو کر کے ڈاکٹر محمد مصدق کو گرفتار کر لیا۔ یوں 21 جولائی 1952 کو جمہوری انتخابات کے نتیجے میں وزیر اعظم منتخب ہونے والے مصدق کی حکومت کا تختہ 19 اگست 1953 کو سی آئی اے اور ایم آئی سکس نے فوج کی مدد سے الٹ دیا گیا۔

سی آئی اے کی جانب سے مقرر کردہ اس آپریشن کے سربراہ کیرمیٹ روزویلٹ نے فوری طور پر واشنگٹن پہنچ کر ذاتی طور پر صدر آئزن ہاور کو نتائج سے آگاہ کیا۔ جنہوں نے آپریشن کی کامیابی پر بہت خوشی کا اظہار کیا۔ بعد ازاں آئزن ہاور نے اپنی ذاتی ڈائری میں اس بارے میں لکھا تھا کہ " آپریشن اجیکس تاریخی حقیقت کی بجائے کسی سستے ناول کی مانند دکھائی دیتا ہے"۔
 اقتدار کے خاتمے کے بعد ڈاکٹر محمد مصدق کو تین سال تک ایرانی فوج کی قید میں رکھا گیا تھا۔ تاہم رہائی کے بعد بھی وہ تا دمِ مرگ اپنے گھر میں نظر بند رہے۔ زندگی کی آخری سانس تک وہ کسی کو اپنے خلاف ہونے والی سازش سے آگاہ نہیں کر سکے۔ ان کا انتقال پانچ مارچ 1967 کو ہوا تھا۔

سی آئی اے اور ایم آئی سکس کی سازش کے کردار کی حیثیت سے ایرانی فوج نے عوام کی منتخب کردہ حکومت پر جو شب خون مارا اس  کے شاہ محمد رضا پہلوی کے اقتدار کو تقویت ملی جو عوامی مخالفت کے خوف سے ملک سے فرار ہو گئے تھے۔ وہ اس کے بعد ایران واپس آئے اور خطے میں امریکہ کے سب سے اہم اور قریبی حلیف بن کر ابھرے۔