Monday, June 9, 2025

سعودی عرب کی مختصر تاریخ

سرزمینِ حرمین جس میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جیسے مقدس شہر شامل ہیں حصہ ہے مملکة العربیہ السعودیہ کا۔ اس کو عرف عام میں سعودی عرب کہا جاتا ہے۔ یہ جزیرہ نمائے عرب میں سب سے بڑا ملک ہے ۔ شمال مغرب میں اس کی سرحد اردن، شمال میں عراق اور شمال مشرق میں کویت، قطر اوربحرین جبکہ مشرق میں متحدہ عرب امارات، جنوب مشرق میں اومان، جنوب میں یمن سے ملی ہوئی ہے۔ خلیج فارس اس کے شمال مشرق اور بحیرہ قلزم اس کے مغرب میں واقع ہے۔

 سعودی عرب آل سعود نام کے نام سے منسوب ریاست ہے، جن کا سیاسی ظہور 1750ء میں عرب کے وسطی علاقے نجد میں ہوا۔ جب ان کے ایک قبائلی سردار محمد بن سعود (متوفی:1765ء) نے معروف مصلح محمد بن عبدالوہاب کی بعیت کر کے اُن کی تحریک کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ جلد ہی ان دونوں قوتوں کے مشترکہ طاقت نے نجد میں ایک نیم خود مختار حکومت قائم کر لی۔ یہ حکومت زیادہ دن برقرار نہ رہ سکی۔ سلطنت عثمانیہ کی طرف سے مقرر کردہ مصری حکمران محمد علی پاشا نے نجد پر حملہ کر کے ان حکومت کو 1818ء میں ختم کردیا۔

 محمد علی پاشا کے حملے کے بعد آل سعود نجد سے بھاگ کر کویت کے علاقے میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ تقریباً 80 سال کی جلا وطنی کے بعد اس خاندان کی قسمت کا ستارہ اس وقت چمک اٹھا جب عالمی طاقتوں نے مسلمانوں کی عظیم سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے لئے سازشوں کے جال پھلانے شروع کیے۔ اور مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے مقامی طالع آزماوں کو قوت فراہم کرنا شروع کی۔ باور کیا جاتا ہے کہ برطانیہ انڈیا آفس نے آل سعود کے سربراہ عبدالعزیز ابن سعود (جو اپنے اجداد کے زیر انتظام علاقوں پر قبضے کے خواب دیکھ رہا تھا) سے رابطہ بیدا کیا۔

 1902ء میں عبدالعزیز ابن سعود (جو این سعود کے نام سے جانے جاتے تھے) نے نجد کے دارلحکومت ریاض اچانک قبضہ کر لیا جہاں عثمانیوں کی نیابت کرنے والے آلِ رشید حکمران تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ابن سعود کے اس اچانک قبضے کے پیچھے برطانیہ کی امداد اور سازشی سیاست تھی۔ اس کے بعد بغیر کسی قابل ذکر مزامت کے پورے نجد پر آل سعود کا قبضہ ہوگیا۔ 1913ء میں ابن سعود نے خلیج فارس کے عثمانی صوبے الحساء پر قبضہ کرلیا۔

 یہاں برطانیوں کے لئے صورتحال بہت مشکل ہوگئی تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے بادل منڈلاتے صاف نظر آرہے تھے۔ عثمانی ترکوں کا جھکاو جرمنی کی طرف تھا۔ برطانیہ کا خیال تھا کہ اگر ترک خلیفہ نے جنگ کے دوران برطانیہ کے خلاف اعلان جہاد کر دیا تو اسے نہ صرف اپنے بہترین مسلمان فوجیوں سے ہاتھ دھونے پڑھیں گے بلکہ مسلمان رضاکاروں کی ایک بہت بڑی تعداد اس مزہبی فریضے کی آدائیگی کے لئے جنگ کے میدانوں کا رخ کرے گی جس کا مقابلہ ناممکن ہوگا۔

 برطانیہ کا خیال تھا کہ ترک خلیفہ کی اصل اہمیت حرمین یعنی مکہ اور مدینہ کا حکمران ہونے کی وجہ سے ہے۔ اگر حرمین پر کسی دوسرے فرد کی حکومت قائم ہو جائے تو اس کی مخالفت سے تُرک خلیفہ کی جانب سے جہاد کا اعلان بے اثر ہو جائے گا۔ برطانیہ نے اس مقصد کے لئے گورنر مکہ حسین ہاشمی (جو شریف مکہ کہلاتا تھا)کو منتخب کیا جو آل رسول؀ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں میں مقبول تھا۔ اسے مشہور زمانہ انگریز جاسوس لیفٹیننٹ کرنل تھامس ایڈورڈ لارنس(جو لارنس آف عریبیہ کے نام سے مشہور ہے) کے زریعے لالچ دیا گیا کہ اگر وہ سلطان ترکی کے خلاف بغاوت کردے تو اسے پورے مشرق وسطیٰ پر مشتعمل عربوں کی متحدہ سلطنت کا حکمران بنایا جائے گا جس کا دالحکومت دمشق ہوگا

شریف مکہ کو ایک کُھلا دھوکہ دیا جا رہا تھا جبکہ حققت میں یورپ کی استعماری قوتیں برطانیہ اور فرانس سائیکوس-پیکوٹ معاہدہ کے زریعے مستقبل کے مشرق وسظی کی آپس میں تقسیم کا معاہدہ کر چکے تھے۔ فرانسیسی سفیر فرانکوئس جورجز پیکوٹ اور برطانیہ کےمارک سائیکس کے درمیان ہوئے اس معاہدے کے تحت اردن، عراق اور حیفہ کے گرد مختصر علاقہ برطانیہ کو دیا گیا۔ فرانس کو جنوب مشرقی ترکی، شمالی عراق، شام اور لبنان کے علاقے دیئے گئے تھے۔ بعد ازاں اس معاہدے میں اٹلی اور روس کو بھی شامل کر لیا گیا۔ روس کو آرمینیا اور کردستان کے علاقے دیئے گئے جبکہ اٹلی کو جزائر ایجیئن اور جنوب مغربی اناطولیہ میں ازمیر کے اردگرد کے علاقوں سے نوازا گیا۔

پہلی جنگ عظیم میں شریف مکہ کے بیٹوں نے لارنس آف عربیہ قیادت میں عرب بدوں کی فوج تیار کر کے ترکوں کے خلاف جنگ شروع کردی۔ ترکوں کی سپلائی لائن کو جگہ جگہ سے تباہ کیا گیا۔ ترکوں کی چھاونیوں اور پڑاوں پر گوریلہ حملے کیے گئے۔ جس کے باعث ترکوں کے لئے بیک وقت اتحادیوں کی باقاعدہ فوجوں اور بدوں کے چھاپہ مار دستوں کا مقابلہ کرنا ممکن نہ رہا اور وہ عرب علاقوں سے پسپا ہو گئے۔

 پہلی جنگ عظیم میں فتح حاصل کرنے کے بعد جب شریف مکہ سے کئے گئے واعدے کو وفا کرنے کا وقت آیا تو برطانیہ نے متحدہ عرب مملکت کے قیام سے جان چھڑانے کے لئے ایک نئی حکمت عملی تیار کر لی۔ اسں نے والی نجد ابن سعود سے حجاز پر حملہ کروا دیا، برطانیہ نے اپنے دیرینہ اتحادی شریف مکہ کے بجائے ابن سعود کا ساتھ دیا جس کے باعث وہ آسانی سے حجاز پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔

 تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ برطانیہ اس علاقے پر خود قبضہ کرنا چاہتا تھا لیکن روس نے اس کی حکمت عملی کو سبوتاژ کرنے کے لئے ابن سعود کی حکومت کو تسلیم کرلیا۔ جس کے بعد برطانیہ کو بھی علاقے کی حساس صورتحال کے پیش نظر مجوراً ابن سعود کو سلطان نجد و حجاز تسلیم کرنا پڑا۔ یوں مملکت نجد و حجاز (Kingdom of Nejd and Hejaz) (عربی: مملكة نجد والحجاز) کا قیام عمل میں آیا۔

 23 ستمبر 1932ء میں ابن سعود سلطان نجد و حجاز اور برطانیہ کے درمیان طے پانے والے معاہدہ جدہ کے تحت مملکت حجاز و نجد کا نام تبدیل کر کے مملکت العربیہ السعودیہ رکھ دیا گیا۔ معاہدے میں یہ بھی طے پایا تھا کہ مملکت العربیہ السعودیہ علاقے میں برطانیہ کے مفادات کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرے گی۔ اور نہ ہی برطانیہ کی جانب سے مملکت کی حدود سے باہر خطے میں کیے جانے والے اقدامات پر کوئی اعتراض کرے گی، وہ اپنی حدود میں اضافہ کرنے کی کوشش نہین کرے گی۔ اس معاہدے کے کے روز کو سعودی عرب کے قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ عبد العزیز ابن سعود کے بعد اس کے بیٹے فیصل، خالد، فہد اور عبداللہ یک بعد دیگرے حکمران رہے ہیں۔ موجودہ بادشاہ سلیمان بن عبدالعزیز ہے