برطانیہ کے ممبر
پارلیمنٹ پال فلن نے مطالبہ کیا ہے کہ برطانوی فوجوں جتنی جلدی ممکن ہوسکے افغانستان سے واپس بلایا جائے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس بات کی
کوئی گنجائش نہیں ہے کہ ایک بھی اور برطانوی فوجی کو "ایک ہاری ہوئی جنگ"
کی بھینٹ چڑھایا جائے۔ ان کے مطابق افغانستان کی جنگ "جیتی نہیں جاسکتی"۔
انہون نے حکومت کے اس فیصلے کو سراہا جس کے مطابق 4000 برطانوی فوجیوں کو
اگلے سال کے اختتام تک واپس بلایا جائے گا۔

مسٹر پال فلن کے ساتھی ممبر پارلیمنٹ
جرمی کاربین نے وزارت دفاع کے سیکرٹری فلپ ھیمنڈ سے ہاوس آف کامنز کے سامنے
یہ اعتراف بھی کروایا کہ برطانیہ 2001 سے لے کر اب تک اس جنگ پر 17.4 بلین پاونڈز خرچ کرچکا ہے، مسٹر ھیمنڈ نے یہ بھی اعتراف بھی کیا کہ
2014 میں فوجوں کو نکالے جانے کے باوجود برطانیہ افغانستان کے ساتھ اپنے
وعدے پر قائم رہے گا، ان کا کہنا تھا کہ نیٹو میں اس بات پر اتفاق پایا
جاتا ہے کہ اقتدار کی منتقلی کے بعد افغانستان میں ایک "غیر فوجی مشن "
جاری رکھا جائے گا۔۔ مگر وزیر اس کی تفصیلات کو واضح نہ کرسکے اور کہا کہ
ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ برطانیہ افغانستان کی وزارت دفاع کو ٹاپ لیول پر
مدد فراہم کرتا رہے۔۔ مسٹر ھیمنڈ نے ممبران پارلیمنٹ کو مزید بتایا کہ بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ امریکہ 2014 کے بعد بھی کیمپ بیسٹین میں
اپنی موجودگی برقرار رکھے۔
یاد رھے کہ اس لڑائی میں مغربی اعداد و
شمار کے مطابق 1000 سے زائد برطانوی فوجی یا تو اپنی جانیں کھو چکے ہیں یا
زخمی ہیں اور بدھ کو برطانیہ نے افغانستان سے اپنی آدھی فوج 2013 کے
اختتام تک واپس بلانے کا اعلان کیا ہے مگر اس اعلان میں یہ بھی واضح کیا
گیا ہے کہ دسمبر 2014 کے بعد برطانوی فوجیوں کی ایک نامعلوم تعداد
افغانستان میں رہے گی جو کہ وہاں سے حربی آلات کی واپسی کا انتظام کرے گی۔