Thursday, December 20, 2012

افغانستان میں ہاری ہوئی جنگ کی بھینٹ مزید فوجی نہ چڑھائے جائیں۔ برطانوی رکن پالیمنٹ

برطانیہ کے ممبر پارلیمنٹ پال فلن نے مطالبہ کیا ہے کہ برطانوی فوجوں جتنی جلدی ممکن ہوسکے افغانستان سے واپس بلایا جائے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس بات کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ ایک بھی اور برطانوی فوجی کو "ایک ہاری ہوئی جنگ" کی بھینٹ چڑھایا جائے۔ ان کے مطابق افغانستان کی جنگ "جیتی نہیں جاسکتی"۔ انہون نے حکومت کے اس فیصلے کو سراہا جس کے مطابق 4000 برطانوی فوجیوں کو اگلے سال کے اختتام تک واپس بلایا جائے گا۔

مسٹر فلن نے یہ بھی انکشاف کیا کہ افغانستان کے کرپٹ سیاستدانوں نے 4.5 بلین پاونڈز کی خطیر رقم افغانستان سے باہر بھیج دی ہے، ان میں سے زیادہ تر رقم دوبئی منتقل کی جا چکی ہے، ان کے مطابق یہ کرپٹ سیاستدان غیرملکی افواج کے نکلتے ہی افغانستان سے نکل بھاگنے کی تیاری کررہے ہیں۔

مسٹر پال فلن کے ساتھی ممبر پارلیمنٹ جرمی کاربین نے وزارت دفاع کے سیکرٹری فلپ ھیمنڈ سے ہاوس آف کامنز کے سامنے یہ اعتراف بھی کروایا کہ برطانیہ 2001 سے لے کر اب تک اس جنگ پر 17.4 بلین پاونڈز خرچ کرچکا ہے، مسٹر ھیمنڈ نے یہ بھی اعتراف بھی کیا کہ 2014 میں فوجوں کو نکالے جانے کے باوجود برطانیہ افغانستان کے ساتھ اپنے وعدے پر قائم رہے گا، ان کا کہنا تھا کہ نیٹو میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ اقتدار کی منتقلی کے بعد افغانستان میں ایک "غیر فوجی مشن " جاری رکھا جائے گا۔۔ مگر وزیر اس کی تفصیلات کو واضح نہ کرسکے اور کہا کہ ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ برطانیہ افغانستان کی وزارت دفاع کو ٹاپ لیول پر مدد فراہم کرتا رہے۔۔ مسٹر ھیمنڈ نے ممبران پارلیمنٹ کو مزید بتایا کہ بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ امریکہ 2014 کے بعد بھی کیمپ بیسٹین میں اپنی موجودگی برقرار رکھے۔

یاد رھے کہ اس لڑائی میں مغربی اعداد و شمار کے مطابق 1000 سے زائد برطانوی فوجی یا تو اپنی جانیں کھو چکے ہیں یا زخمی ہیں اور بدھ کو برطانیہ نے افغانستان سے اپنی آدھی فوج 2013 کے اختتام تک واپس بلانے کا اعلان کیا ہے مگر اس اعلان میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ دسمبر 2014 کے بعد برطانوی فوجیوں کی ایک نامعلوم تعداد افغانستان میں رہے گی  جو کہ وہاں سے حربی آلات کی واپسی کا انتظام کرے گی۔