مصر میں منتخب
صدر محمد مرسی کےحامیوں نے سکیورٹی فورسز کی طرف سے دھرنا ختم کرانے کے لئے فوج اور لبرل غنڈوں کے تمام تر تشدد، دھمکیوں اور ہلاکت خیر ہتھکنڈوں کے استعمال کے باوجود منتشر
ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ انہوں ہر حالت میں اپنے مقاصد کے حصول تک اپنا احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
جمعے اور ہفتے کو ہونے والے شدید تشدد کے بعد اتوار کو صورتحال قدرے پرامن رہی ہے۔ قاہرہ اور سکندریہ سمیت کسی شہر سے بڑی جھڑپ کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
برطانوی خبر رسان ادارے رائٹر نے بتایا ہے کہ قاہرہ کے ہسپتالوں میں زخمی ہونے والے 65 افراد ایسے ہیں جن کو مشینوں کے سہارے زندہ رکھا جا رہا ہے جبکہ ڈاکٹروں نے انہیں دماغی طور پر مردہ قرار دے دیا ہے۔
سرکاری زرائع نے جمعے کو ہونے والے تشدد کے نتیجے میں 74 افراد کے بانبحق ہونے کی تصدیق کر دی ہے۔ مصر کی عبوری حکومت کے وزیرِ داخلہ محمد ابراہیم نے دعویٰ کیا ہے کہ مصر کی پولیس مظاہرین کے خلاف صرف آنسو گیس کا استعمال کر رہی ہے۔ انہوں نے اخوان المسلمون پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ سیاسی مفادات کے حصول کے لیے ہلاک شدگان کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر بیان کر رہی ہے۔
دوسری جانب غیر جاندار اخبار 'نیویارک ٹائمز' نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ جمعے کو اپنے شناختی نشان چھپائے ہوئے فوجی اور پولیس اہلکاروں نے اخوان کے حامیوں پر بغیر کسی انتباہ کے براہِ راست فائرنگ کی۔ اخبار نے لکھا ہے کہ پولیس اہلکاروں کے ہمراہ بعض مسلح شہری بھی موجود تھے جنہوں نے محمد مرسی کےحامی مظاہرین کو نشانہ بنایا۔ اخبار نے لکھا ہے کہ ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں سے بیشتر کے سروں اور سینوں پر گولیاں ماری گئی ہیں جن میں کئی بچے بھی شامل ہیں۔ دھرنے کے نزدیک قائم کیے گئے ایک عارضی مردہ خانے میں بیشتر لاشیں ایسی ہیں جن کے سر پر دونوں آنکھوں کے درمیان گولی ماری گئی ہے۔
اخوان کے مرکزی دھرنے میں شریک کئی افراد نے دعویٰ کیا ہے کہ دھرنے کی طرف آنے والے راستوں کی عمارتوں پر نشانے باز تعینات ہیں جو مظاہرین کے سروں پر گولیاں مار رہے تھے۔

جمعے اور ہفتے کو ہونے والے شدید تشدد کے بعد اتوار کو صورتحال قدرے پرامن رہی ہے۔ قاہرہ اور سکندریہ سمیت کسی شہر سے بڑی جھڑپ کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
برطانوی خبر رسان ادارے رائٹر نے بتایا ہے کہ قاہرہ کے ہسپتالوں میں زخمی ہونے والے 65 افراد ایسے ہیں جن کو مشینوں کے سہارے زندہ رکھا جا رہا ہے جبکہ ڈاکٹروں نے انہیں دماغی طور پر مردہ قرار دے دیا ہے۔
سرکاری زرائع نے جمعے کو ہونے والے تشدد کے نتیجے میں 74 افراد کے بانبحق ہونے کی تصدیق کر دی ہے۔ مصر کی عبوری حکومت کے وزیرِ داخلہ محمد ابراہیم نے دعویٰ کیا ہے کہ مصر کی پولیس مظاہرین کے خلاف صرف آنسو گیس کا استعمال کر رہی ہے۔ انہوں نے اخوان المسلمون پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ سیاسی مفادات کے حصول کے لیے ہلاک شدگان کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر بیان کر رہی ہے۔
دوسری جانب غیر جاندار اخبار 'نیویارک ٹائمز' نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ جمعے کو اپنے شناختی نشان چھپائے ہوئے فوجی اور پولیس اہلکاروں نے اخوان کے حامیوں پر بغیر کسی انتباہ کے براہِ راست فائرنگ کی۔ اخبار نے لکھا ہے کہ پولیس اہلکاروں کے ہمراہ بعض مسلح شہری بھی موجود تھے جنہوں نے محمد مرسی کےحامی مظاہرین کو نشانہ بنایا۔ اخبار نے لکھا ہے کہ ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں سے بیشتر کے سروں اور سینوں پر گولیاں ماری گئی ہیں جن میں کئی بچے بھی شامل ہیں۔ دھرنے کے نزدیک قائم کیے گئے ایک عارضی مردہ خانے میں بیشتر لاشیں ایسی ہیں جن کے سر پر دونوں آنکھوں کے درمیان گولی ماری گئی ہے۔
اخوان کے مرکزی دھرنے میں شریک کئی افراد نے دعویٰ کیا ہے کہ دھرنے کی طرف آنے والے راستوں کی عمارتوں پر نشانے باز تعینات ہیں جو مظاہرین کے سروں پر گولیاں مار رہے تھے۔