Wednesday, September 25, 2013

جہاد النکاح ! افسانہ یا حقیقت

شام میں جاری جنگ کئی محاذوں پر لڑی جا ری ہے، جن میں عسکری محاذ کے علاوہ سفارتی اور ابلاغی محاذ بہت نمایاں ہیں۔ شام کی 82 فیصد سے زاہد آبادی سنی العقیدہ ہے جبکہ حکومت شعیوں کے پاس ہے جن کے مختلف فرقوں کا تناسب کچھ یوں ہے، 12 فیصدعلوی یا نصیری، 2 فیصد اسماعلیی اور 3 فیصد دروزی۔ اس لئے خالصتاً سیاسی بنیادوں پر شروع ہونے والی عوامی مزاحمت اب مذہبی جنگ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ جس کا رنگ ایران اور لبنانی شعیہ تنظیم حزب اللہ کی شمولیت کی وجہ سے مزید گہرا ہو گیا ہے۔ شام کے حوالے سے آج کل ایک موضوع جہاد النکاح بہت مشہور ہوا ہے۔ یہ ہے کیا اور اس کی شہرت کیسے ہوئی ہے آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔

29 دسمبر 2012 کو لبنان کے ٹی وی سٹیشن "الجدید" سے سعودیہ کے مشہور عالم شیخ محمد العریفی کے حوالے سے ایک خبر سامنے آئی ۔ جس کے مطابق انہوں نے شام میں مجاہدین کی جنسی تسکین کے لیے "جہاد النکاح" کو درست قرار دیا اور اس کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ اس چینل نے اپنی خبر میں اس فتویٰ کا کوئی دستویزی ثبوت پیش نہیں کیا تھا۔ ٹوئٹرپر مبینہ طور پر شامی مزاحمت کے مخالف ایک شعیہ یوزر نے اس خبر کا لنک بمعہ انگلش ترجمہ شائع کیا اور یوں یہ مغربی میڈیا کے ہاتھ لگا۔ مغربی میڈیا جو اس جنگ میں القاعدہ اور دیگر جہادی گروپوں کی شمولیت سے سخت خائف ہے کے ساتھ ساتھ شعیہ حکومتوں اور تنظیموں کے زیر اثر چلنے والے میڈیا نے اس خبر کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ دروسری جانب  لبرلز و سیکولرز عناصر کو بھی اس خبر سے اسلام کو بدنام کرنے کا ایک موقع ہاتھ لگ گیا۔

 شیخ محمد العریفی بشاری اقتدار کے خلاف سب سے زیادہ سرگرم عالم دین ہیں جو خلیج وسطی کے عرب مسلمانوں کو شامی جہاد کی مدد کے لیےابھارتے رہتے ہیں۔ وہ سماجی رابطے کی ویب سائیڈز پر بھی بہت مقبول فرد ہیں، صرف ٹویٹر پر ان کو فالو کرنے والوں کی تعداد 35 لاکھ سے زائد ہے اور ایک اندازے کے مطابق 15 لاکھ لوگ ان کو فیس بک پر فالو کرتے ہیں۔جنوری 2012 میں ان کی شامی جہاد کے بارے میں ایک ویڈیو کو 11 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے دیکھا تھا۔
ایسے مشہور عالم دین کی جانب سے ایسے کسی فتوے کی آمد گویا مغربی و شعیہ میڈیا کے لیے  بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا کہ مترادف تھا۔ بغیر کسی ثبوت کہ نشر کی گئی اس خبر کو بغیر کسی تصویق کے ہر طرف پھیلا دیا گیا ۔ خود کو "روشن خیال  قرار دینے والوں اور تہذیب اور شائستگی کے چمپئین بننے والوں  کی ایک بڑی آرگنائزیشن پروگریسو کے میڈیا مرکز "الرٹ نیٹ" نے اس کو اپنی ویب سائیڈ پر بغیر تصدیق کے شائع کردیا (الرٹ نیٹ اب یہ رپورٹ ڈیلیٹ کرچکا ہے)۔ جہاں یہ پوری دنیا میں بجلی کی تیزی کے ساتھ پھیل گئی۔

مغربی و شعیوں کے زیر اثر میڈیا جو کہ عام حالات میں بھی  اسلام و مسلمانوں کے خلاف سامنے آنے والے کسی مواد کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ہے اس کے لئے تو یہ گویا سونے کی کان تھی۔ ایرانی حکومت کے زیر اہتمام کئی زبانوں میں نشریات پیش کرنے والے پریس ٹی وی ، لبنان و عراق سے چلنے والے شعیوں کے میڈیا مراکز اس خبر کو پھیلانے میں جت گئے۔ ایرانی پریس ٹی وی نے اپنی ویب سائٹ پر اس فتوی سے متعلق ایک انگریزی میں رپورٹ شائع کی جسے’ریڈیکل اسلام ڈاٹ او آر جی‘ نامی ادارے نے ٹویٹر اکاونٹ کے لنک کے ساتھ اپنی ویب سائٹ پر جگہ دی (یہ سائٹ پاکستان میں بین ہے دیکھنے کے لیے پراکسی استعمال کریں)۔ یہ ویب سائٹ مبینہ طور پر مسلم مخالف ادارے کلرین کی مدد سے کام کرتی ہے جو کہ یہودی ہے اور کچھ عرصہ قبل ایک مسلم مخالف فلم کی تقسیم میں بھی ملوث رہی ہے۔

یہ اپنی نوعیت کی کوئی پہلی خبر نہ تھی اور نہ ہی اس میں یہودی و مغربی ذرائع ابلاغ کی بے پناہ دلچسپی کوئی پہلا واقعہ تھا۔ اس سے پہلے جولائی 2012 میں بھی ایک مغربی میگزین "دی ایڈوکیٹ" کی طرف سے یہ الزام سامنے آچکا تھا کہ بعض جہادی علماء نے جہاد کے دوران "ہم جنس پرستی " جیسے قبیح فعل کی اجازت دی ہے۔ یہ فتاوی اور ان سے متعلقہ خبریں ایسی قبیح تھیں کہ کوئی ذی شعور مسلمان جو کہ اسلام  کی زرا سی بھی شدبد رکھتا ہو ان کو  تسلیم کر سکتا تھا۔

 شیخ محمد العریفی تک جب ان سے منسوب اس فتوے کے بارے میں خبریں پہنچیں تو انہوں نے پر زور الفاظ میں اس کی تردید کی۔ ٹویٹر اور فیس بک پر موجود ان کے تردیدی بیانات کے مطابق ان سے منسوب یہ فتوی ایک گھڑا گھڑایا جھوٹ ہے جس کا ان سے ہرگزکوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یوٹیوب پر موجود انکے کئی خطبات میں اس فتوی کی پرزور تردید موجود ہے۔

 ہونا تو یہ چاہیے تھا کہشیخ محمد العریفی کی جانب سے واضع تردید کے بعد یہ تمام ویب سائٹز اور میڈیا مراکز اپنی اس خبر کے غلط ہونے کی تصدیق کرتے اور بغیر تحقیق کے شائع ہونے والی اس خبر کے حوالے سے اپنے قارئین سے معذرت کرتے۔ لیکن الرٹ نیٹ کے علاوہ کسی کو بھی اتنی توفیق نہ ہوسکی۔ صرف الرٹ نیٹ نے واضح طور پر اس جھوٹی سٹوری کو بغیر تصدیق کے شائع کرنے پرمعافی مانگی۔ جبکہ ایک دوسرے میڈیا مراکز مثلا سیلون ڈاٹ نیٹ نے تین جنوری 2013 کو بغیر معافی مانگے یہ رپورٹ اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دی۔ 3 جنوری کو ہی "ایم ایس این ڈاٹ کام" نے اپنی سٹوری کے ساتھ شیخ العریفی کا فتوے سے لاتعلقی کا بیان بھی شامل کیا۔ مغربی میڈیا مراکز کے اور بہت سے ادارے جو کہ اس سٹوری کو چھاپنے میں ملوث رہے ہیں معذرت یا تردیدی بیان شائع کررہے ہیں۔ لیکن اہل تشیع سے تعلق رکھنے والے ابلاغی ادارے آج بھی اس جھوٹ کو پھیلانے میں مصروف ہیں اور اس کو پورے دھڑلے سے بیان کر رہے ہیں۔

 لیکن معاملہ یہاں پر ہی ختم نہیں ہوگیا کچھ دن پہلے ہی تیونس کے وزیر داخلہ کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا کہ انہیں یہ شواہد ملے ہیں کہ تیونس سے کچھ لڑکیاں شام میں مجاہدین کی جنسی تسکین کے لیے بھیجی گئی ہیں۔ اور ان کو اجتماعی طور پر جنسی تسکین کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ اس خبر کو پھیلانے میں فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ساتھ ساتھ سعودیہ اور متحدہ عرب امارات کی مشترکہ ملکیت کے ادارے ’العربیہ نیوز‘ کا بھی ہاتھ ہے۔  لیکن حقیقت بہت واضع ہے کہ شامی سرزمین پر موجود مغرب کے لئے قابل قبول فری سیرین آرمی کے جنگجوں کے علاوہ  مختلف الخیال بین القوامی انسانی حقوق کی تنظیمیوں اور رضاکاروں نے ایسی کسی بات کی تصدیق نہیں کی ہے۔ یہ تیونسی حکومت کی جانب سے چھوڑی گئی پھلجڑی ہے جس کا واحد مقصد ملک کے شمال میں الجزائر کی سرحد کے ساتھ جہادیوں کے خلاف جاری فوجی کاروائی کو عوامی حمایت مہیا کرنا ہے۔

مزید تفصیلات کے لئے درج ذیل لنک دیکھے جا سکتے ہیں۔
جھوٹ کی کہانی
تیونسی وزیر داخلہ کے بیان کی حقیقت