Saturday, November 23, 2013

شام میں جہادی گروپوں کے اتحاد، جبھۃ الاسلامیہ کی تشکیل

شام میں برسرپیکار 6 بڑے و نمایاں مجاہد گروہوں نے بشار سے لڑنے و اسلامی شریعت کے نفاذ کے لیے ایک نئے اتحاد جبھۃ الاسلامیہ کی تشکیل دی ہے جو کہ ساٹھ سے ستر ہزار تک جنگجووں پر مشتمل ہے. اس اتحاد کا اعلان 22 نومبر 2012 بروز جمعہ کو کیا گیا مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ حالیہ تاریخ میں کسی بھی ملک میں تشکیل دیئے جانے والا سب سے بڑا اسلامی لشکر ہے، اس میں شامل گروپوں میں چند اہم اور بڑے گروپوں کا تعارف ذیل میں دیا جا رہا ہے۔

لواء التوحید

شام میں لڑنے والے بڑے جہادی گروہوں میں سے ایک۔ اس کے لیڈر عبدالقادر صالح تھے جو کہ چند دن پیشتر ہی شامی فوجوں سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے ۔جبھۃ الاسلامیہ کی تشکیل کے وقت اس کو ان کے نام سے ہی منسوب کیا گیا۔

حرکہ احرار الشام الاسلامیہ

مقامی شامی سلفی گروہوں میں سے سب سے زیادہ مضبوط ۔ احرارالشام اپنی دلیری و مہارت کے لیے مشہور ہے اور کئی مشہور معرکوں میں حصہ لے چکا ہے۔ احرار الشام کو القاعدہ ہی کی طرح کا گروہ خیال کیا جاتا ہے گو کہ اس نے کبھی القاعدہ سے وابستگی کا اعلان نہیں کیا ۔ اس کے سربراہ عبداللہ الحموی ہیں،

جیش الاسلام

ستمبر 2013 میں کئی مجاہد تنظیموں کو ملا کر اسلام بریگیڈ کے سربراہ ظہران العوش کی قیادت میں ایک لشکر کی تشکیل ہوئی جس کو جیش الاسلام کا نام دیا گیا۔ اس گروہ کے متعلق سعودیہ نواز ہونے کا گمان ہے گو کہ اس کی اعلی قیادت اس کا انکار کرتی ہے اور میدان جنگ میں القاعدہ سے منسلکہ تنظیموں کے ساتھ بھی تعاون کرتی ہے۔ جیش الاسلام اب جبھۃ الاسلامیہ میں ضم ہوچکاہے ۔

صقور شام

شیخ احمد ابو عیسی کی زیرقیادت لڑنے والا یہ گروہ اپنی بہادری و جرآت کی وجہ سے ایک ممتاز حثیت رکھتا ہے ۔سلفی العقیدہ شیخ احمد ابو عیسی اور ان کا خاندان بشاری اقتدار کے خلاف جدوجہد کی وجہ سے مشہور ہیں ۔ موجودہ صدر بشار اور اس کے باپ حافظ الاسد کے دور میں شیخ احمد ابو عیسی کے کئی قریبی رشتے داروں کو ماردیا گیا ۔ یہ گروہ اب جبھۃ الاسلامیہ کا حصہ ہوگا

لواء الحق

سلفیوں کی زیر قیادت لڑنے والا یہ گروہ حمص و گردونواح میں اپنی جانباز کاروایئوں کی وجہ سے مشہور ہے

انصار الشام

یہ شمالی الاذقیہ اور ادلب میں کاروایئاں کرتا ہے اور اس کا شمار بڑے جنگجو گروہوں میں ہوتا ہے

کرد اسلامک فرنٹ

اس کا شمار بڑے گروہوں میں نہیں ہے لیکن اس کی اہمیت زیادہ ہے کیونکہ یہ اپنے ہی ہم وطن کردوں سے جو کہ بشار کا ساتھ دیتے ہیں مذہب کی وجہ سے برسرپیکار ہے شیخ احمد عیسیٰ کو اس نئے اتحاد کی مجلس شوریٰ کا صدر متعین کیا گیا جو کہ صقور الشام نامی لشکر کے امیر ہیں۔ احمد زیدان امیر لواء التوحید نائب صدر مقرر ہوئے ہیں۔ عسکری شعبہ کے صدر زھران علوش ہیں جو کہ جیش الاسلامی کے سربراہ ہیں۔ سیاسی شعبہ کے سربراہ حسان عبود ہیں جو احرار الشام کے قائد ہیں۔ جبھہ کے عام سربراہ لوائ الحق نامی لشکر سے ابو راتب حمصی ہیں۔ حرکۃ احرار الشام سے ابو العباس جبھہ کے شرعی معاملات کے مسئول ہیں۔ اتحاد کے نو منتخب سربراہ شیخ احمد عیسی نے اس اتحاد کی تشکیل کے بعد اپنے پیحام میں کہا ہے کہ ’’یہ ایک سیاسی عسکری اور معاشرت تشکیل ہے جس کا مقصد شام میں بشار لاسد کے ظالم نظام کاخاتمہ اور اسلامی مملکت کا قیام ہے جس میں کبریائی اللہ اکیلے کو حاصل ہو گی وہی ایک فرد،معاشرہ اور حکومت کے معاملات میں اکیلا مرجع اور حاکم ہو گا۔ اس اتحاد کا قیام شیخ عبدالقادر صالح کے خواب کو پورا کرتا ہے جو کہ شام میں مسلمان جنگجووں کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی کوشش میں رہتے تھے اور مزید یہ کہ اس تشکیل کردہ تحریک سے شوریٰ کے نظام کا مکمل نعم البدل حاصل ہو جائے گا ۔شیخ نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جبھہ اسلامیہ ان تمام دستوں کے ساتھ مل کر کام کرے گی جو شام میں انقلاب کے لیے کام کر رہے ہیں وہ کسی سے ٹکراو نہیں کرے گی۔ اس موقعہ پر انہوں نے تمام جہادی اور عسکری قوتوں کو اس اتحاد میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی ہے۔ اتحاد کا یہ عمل لواء التوحید کے قائد عبدالقادر صالح کی شہادت کے ایک ہفتے بعد وجود میں آیا ہے جو 17 نومبر کو شہید ہوئے تھے۔ دوسری جانب مغربی تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ امر باعث حیرت ہے کہ القاعدہ سے منسلکہ دو بڑے گروہ جبھۃ النصرہ و دولۃ الاسلامیہ العراق و الشام اس میں شامل نہیں ہیں جس کے باعث مغربی میڈیا اس حوالے سے اس پر مختلف قیاس آریئوں کو جنم دے رہے ہیں۔ لیکن شام میں لڑنے والی تنظیموں پر نظر رکھنے والے اور جاری مزاحمت کی اونچ نیچ سے واقف تضزیہ کاروں کو باخوبی علم ہے کہ ان گروہوں کو اعلانیہ طور پر کسی بھی اتحاد سے باہر رکھنا ایک حکمت عملی کا حصہ ہے جس میں ان گروہوں کی اپنی رضامندی بھی شامل ہے۔ خصوصی رپورٹ ۔ وردۃ الاسلام