امریکہ میں 9/11 حملوں کے مقدمے کی سماعت کرنے والے جج نے حکم جاری کیا ہے کہ ان حملوں کے مبینہ ملزمان کی گرفتاری، قید کے حالات اور حراست کے دوران دی جانے والی اذیتوں کے متعلق حقاحق کو منظر عام پر نہیں لایا جا سکتا۔
امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ کے مطابق کے حملوں کے مقدمے کی سماعت
کرنے والے ججوں کے پینل کے سربراہ اور امریکی فوج کے جج جیمز پوہل نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ ایسی معلومات کو عام کرنے سے امریکی قومی سلامتی کو خطرات لاحق ہو سکتتے ہیں۔
امریکی جج نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ مقدمے سماعت کے دوران حاضرین کی صرف الکٹرونک الات کی مدد سے سسنسر شدہ مواد رسائی ہوگی۔ اس کے لئے سماعت کے موقع پر صحافیوں اور دیگرفوجی اور سول افراد کو یہ کاروائی 40 سیکنڈ کے وقفےکے بعد سنوائی جائےگی، اس دوران امریکی فوجی حکام جس بھی گفتگو یا اطلاع کو مناسب خیال کریں گے اسے سینسر کردیں گے۔
گیارہ ستمبر کے حملوں کے مقدمے کے پانچ ملزمان میں خالد شیخ محمد، رمزی بن الشیبہ، مصطفیٰ احمد الحساوی، علی عبدالالعزیز اور وحید بن عطش شامل ہیں، مقدمے کی کاروائی 1213 میں کیوبا میں گوانتانامو بے کے امریکی بحری اڈے پر ہوگی۔
صحافیوں اور حقوقِ انسانی کے تحفظ کے بین القوامی اداروں نے امریکی جج کے اس حکم کی شدید مذمت کی ہےان کا کہنا ہے کہ امریکی فوج اس طرح کے حربے اختیار کر کے اپنے انسانیت کے خلاف کیے گئے جرائم پر پردہ ڈالنا چاہتی ہے، انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ مقدمے کی کاروائی کھلے عام کی جائے۔
یاد رہے کہ امریکی انٹیلی جنس حکام اِس بات کو تسلیم کر چکے ہیں کہ ان مبینہ ملزمان کو غیر قانونی طریقے سے انکی رہائش کے ممالک سے گرفتار کیا گیا تھا اور دوران حراست انہیں ’واٹر بورڈنگ‘ اور ایسے ہی دیگر اذیت ناک مظالم کا مسلسل نشانہ بنایا گیا ہے۔

امریکی جج نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ مقدمے سماعت کے دوران حاضرین کی صرف الکٹرونک الات کی مدد سے سسنسر شدہ مواد رسائی ہوگی۔ اس کے لئے سماعت کے موقع پر صحافیوں اور دیگرفوجی اور سول افراد کو یہ کاروائی 40 سیکنڈ کے وقفےکے بعد سنوائی جائےگی، اس دوران امریکی فوجی حکام جس بھی گفتگو یا اطلاع کو مناسب خیال کریں گے اسے سینسر کردیں گے۔
گیارہ ستمبر کے حملوں کے مقدمے کے پانچ ملزمان میں خالد شیخ محمد، رمزی بن الشیبہ، مصطفیٰ احمد الحساوی، علی عبدالالعزیز اور وحید بن عطش شامل ہیں، مقدمے کی کاروائی 1213 میں کیوبا میں گوانتانامو بے کے امریکی بحری اڈے پر ہوگی۔
صحافیوں اور حقوقِ انسانی کے تحفظ کے بین القوامی اداروں نے امریکی جج کے اس حکم کی شدید مذمت کی ہےان کا کہنا ہے کہ امریکی فوج اس طرح کے حربے اختیار کر کے اپنے انسانیت کے خلاف کیے گئے جرائم پر پردہ ڈالنا چاہتی ہے، انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ مقدمے کی کاروائی کھلے عام کی جائے۔
یاد رہے کہ امریکی انٹیلی جنس حکام اِس بات کو تسلیم کر چکے ہیں کہ ان مبینہ ملزمان کو غیر قانونی طریقے سے انکی رہائش کے ممالک سے گرفتار کیا گیا تھا اور دوران حراست انہیں ’واٹر بورڈنگ‘ اور ایسے ہی دیگر اذیت ناک مظالم کا مسلسل نشانہ بنایا گیا ہے۔