Sunday, December 16, 2012

افغانستان میں طالبان کے خلاف گفتگو نہ کریں۔ امریکی فوجیوں کو حکم


افغانستان میں موجود امریکی اور دیگر اتحادی فوجیوں کو طالبان اور اسلامی اقدار کے خلاف گفتگو کرنے سے سختی سے روک دیا گیا ہے ۔

امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل نے اپنی حالیہ اشاعت میں بتایا ہے کہ امریکی فوجیوں پر افغان فورسسز کے اہلکاروں کی جانب سے کیے جانے والے متعدد    
 حملوں سے بچاو کی خاطر انہیں ایک  ہینڈ بک (رہنما کتابچہ) مہیا کی گئی ہے۔

اس ہینڈ بک میں ان موضوعات کی فہرست دی مہیا کی گئی ہے جن کوئی بھی اتحادی یا امریکی فوجی افغانستان میں موجودگی کے دوران گفتگو نہیں کر سکتا۔

اخبار کے مطابق ان ممنوع قرار دیے جانے والے موضوعات میں ان ہی افواج کے خلاف مزاحمت کرنے والے طالبان پے تنقید، خواتین کے حقوق کی وکالت، ایک سے زائد شادیوں پر تنقید، ہم جنس پرستی یا جنس پرستانہ رویے کی حمایت جیسے موضوعات سرِ فہرست ہیں۔ اس کے علاوہ  امریکی فوجیوں کو اسلام کے متعلق کسی بھی قسم کی منفی گفتگو کرنے سے بھی سختی سے منع کیا گیا ہے۔

وال سٹریٹ جرنل کے مطابق یہ ہینڈ بک 600 افغان اور 200 امریکی فوجیوں کے انٹرویو کے بعد تیار کی گئی ہے۔ ان انٹرویوز سے یہ نتیجہ سامنے آیا ہے کہ مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے یہ اتحادی ایک دوسرے کے لیے شدید نفرت کا جذبہ رکھتے ہیں۔

امریکیوں کی رائے میں افغان فوجی اہلکار پاگل، چور، بےایمان اور ڈر پوک ہوتے ہیں۔ امریکیوں کی یہ بھی پختہ رائے ہے کہ افغان فوجی موقع ملتے ہی طالبان اور القائدہ سے مل جاتے ہیں۔

وال سٹریٹ جرنل کے مطابق ہنیڈ بک میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ افغان اہلکاروں کی جانب سے اتحادیوں پر ہونے والے حملوں کی وجہ امریکی و اتحادی فوجیوں کی جانب سے افغان معاشرے میں رائج رواجوں، ان کی ثقافتی روایات اور اسلام کے بارے میں انکا تضحیک آمیز رویہ ہے۔

امریکی اخبار کے مطابق افغانستان میں موجود امریکہ کے اعلیٰ  ترین فوجی افسر  جنرل جان ایلن سمیت اکثر فوجی افسران اس ہینڈ بک کے اس مسودے سے ناخوش ہیں۔ افغانستان میں امریکہ کی زیر قیادت اتحادی فوج کے ایک ترجمان کرنل ٹام کولنز کے مطابق جنرل جان ایلن ہینڈ بک کے مواد سے بلکل متفق نہیں ہیں۔

یاد رہے کہ اتحایوں پر افغان فج اور پولیس کے اہلکاروں کی جانب سے اب تک ہونے والے تین درجن سے زائد حملوں میں اتحادی افواج کے 63 ارکان مارے جا چکے ہیں۔ ماہریں کا کہنا ہے کہ اگر حالات ایسے ہی رہے تو افغان فوج کو مستقبل میں مکمل سیکورٹی کنٹرول کی منتقلی کا منصوبہ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔