Monday, December 10, 2012

سینکڑوں افغان بچے سالوں سے امریکی فوج کی غیر قانونی حراست میں ہیں

بچوں کے حقوق سے متعلق اقوامِ متحدہ  کے کنونشن میں پیش کی گئی ایک رپوٹ میں بتایا گیا ہے کہ  امریکی فوج نے 200 سے زائد نوعمر افغان لڑکوں کو بگرام ایر بیس کے قریب ایک جیل میں ایک سال سے زیادہ عرصے تک قید کیے رکھا ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے نے بتایا ہے کہ امریکی سٹیٹ دیپارٹمنٹ کی  جانب سے اقوامِ متحدہ میں جمع کروائی گئی رپورٹ ان قیدیوں کو جنگجو قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں  کہا گیا ہے کہ امریکی فوج نے ان نو عمر لڑکوں کو  جنگجوں میں شامل ہو جانے کے خطرے کے پیش نظر قید میں رکھا گیا ہے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ مزید افغان بچے اس وقت بھی افغان صوبے پروان کی جیل میں قید ہیں جن میں سے زیادہ تر کی عمر16 سال تک ہے، لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ جب انہیں قید کیا گیا تھا اس وقت ان کی عمریں کیا تھیں۔
 
امریکی خبر رساں ادارے مطابق فرد جرم عائد نہ ہونے کی وجہ سے ان لڑکوں کو قانونی امداد بھی فراہم نہیں کی جاتی۔ جیل میں سرانجام  دیے جانے والے معمولات کے دوران بڑی عمر کے افراد اور ان کم سن قیدیوں  میں کوئی امتیاز نہیں کیا جاتا۔

 بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے بین القوامی اور امریکی اداروں نے افغان بچوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے اس سلوک پر شدید تنقید کی ہے۔  امریکن سول لیبرٹیز براۓ انسانی حقوق کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ اگر بچوں کی اوسط عمرسولہ سال ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ  قید کے وقت یہ 13 یا 14 سال سے زیادہ نہیں تھے۔ بچوں کو اتنا لمبا عرصہ قید میں رکھنا ناقابلِ قبول ہے، اس سے بچوں پر نہ صرف ذہنی اور جسمانی طور پر بہت برا اثر پڑ رہا ہے۔

 انٹرنیشنل جسٹس نیٹورک کی ڈائریکٹر ٹینا ایم فوسٹر نے کہا کہ اقوام متحدہ میں پیش کی گئی 200 کی تعداد بھی متنازع ہے، صرف صوبہ پروان کی جیل میں ایسے ہزاروں قیدی موجود ہیں۔ جن کو گھروں سے اٹھا لیا جاتا ہے لیکن ان کی عمر کا تعین نہیں کیا جاتا کئی سال بعد معلوم ہوتا ہے کہ ان کی عمر 18 سال سے کم ہے۔

امریکی فوج پر اس سے پہلے ویت نام اورعراق میں بھی کم عمر بچوں کو طویل عرصے تک غیر قانونی  طور پر زیر حراست رکھنے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔
Source:- Associated Press(www.ap.org)