Friday, December 21, 2012

امریکی بچوں کا قتل عام ایک حادثہ ، اور پاکستانی بچوں کا قتل کیڑے مکوڑوں کا مارے جانا!!!

صرف الفاظ آپ کا دکھ بیان نہیں کرسکتے اور نہ ہی یہ آپ کے زخمی دلوں کو پر مرھم رکھ سکتے ھیں۔ ان حادثات کو ختم ھونا چاہیے  اور ان کو ختم کرنے کے لیے ضروی ھے کہ ہم اپنے آپ کو بدلیں"

 صدر اوبامہ کے نیو ٹاون میں 20 بچوں کے مارے جانے پر کہے جانے والے ان الفاظ کو دنیا بھر کے والدین اپنی دل کی گہرایئوں سے محسوس کرسکتے ھیں ،وہاں بشمول میڈیا کوئی ایک بھی بندہ ایسا نہ تھا جس نے اس قصبے کے لوگوں کا درد محسوس نہ کیا ھو
لیکن یہ اصول ،جیسے کہ ان بچوں کے ضمن میں درست ھے جن کو ایک جنونی نوجوان نے مار ڈالا ویسے ہی یہ ان بچوں کے ضمن میں بھی درست ھے جو کہ پاکستان میں ایک "رنجیدہ امریکن صدر" کے ہاتھوں مارے گئے ۔یہ بچے بھی دنیا کی توجہ کے لیے اہم ،حقیقی اور مستحق ھیں،مگر اس کے باوجود ان کے لیے نہ کوئی صدارتی تقریر، نہ ہی دنیا کے اخبارات کے پہلے صحفوں پر ان کی تصاویر، نہ ہی ان کے بلکتے ھوئے رشتے داروں کاکوئی انٹرویو اور نہ ہی اس کا کوئی تجزیہ کہ کیا ھوا اور کیوں ھوا!!

اور اگر صدر اوبامہ کے ڈرون حملوں کا شکار لوگوں کا کبھی تذکرہ بھی کیا گیا تو ایسے پیرائے میں جیسے وہ انسان نہ ھوں!! رولنگ سٹون میگزین کہتا ھے کہ وہ لوگ جو ڈرون چلاتے ھیں ان کے مارے جانے کو فصلی کیڑوں کے مارے جانے سے تشبیہ دیتے ھیں، جن کو ڈرون کے کیمرون کے زریعے حاصل ھونے والے سبز مائل تصویروں میں دیکھ کر یوں لگتا ھو، جیسے ایک کیڑا مسلا جارھا ھو یا اسے مٹی میں ملایا جارھا ھو۔

ڈرون حملوں کی وکالت کرتے ھوئے اوبامہ کا انسداد دھشت گردی کا ماہر بروس ریڈل کہتا ھے "تمھیں گھاس کو ہروقت کاٹنا ھوتا ھے جیسے ہی تم اسے کاٹنا بند کرتے ھو یہ دوبارہ اگ آتی ھے "

بش انتظامیہ کی طرح ہی اوبامہ کی حکومت نے پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں ڈرون حملوں سے ھونے والی عوامی ہلاکتوں کا نہ کبھی ریکارڈ مرتب کیا ھے اور نہ ہی انہیں تسلیم کیا ھے ،مگر سٹینڈ فورڈ یونیورسٹی میں لا سکولز کے تحت کی جانے والی ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ھے کہ صدر اوبامہ اپنے  اقتدار کے صرف ابتدائی تین سالوں میں، 259 ڈرون حملوں کے زریعے 297 سے لے کر  569 کے لگ بھگ لوگوں کو مارنے کا زمہ دار ھے جن میں سے 64 بچے تھے !! یہ وہ اعداد و شمار ھیں جو کہ مصدقہ زرائع سے حاصل کیے گئے ھیں ان میں وہ تعداد شامل نہیں جو کہ کبھی ریکارڈ پر ہی نہیں لائے گئے !
اس علاقے کے بچوں پر ان حملوں کے مرتب کردہ اثرات بہت بھیانک ھیں ،لاتعداد بچوں کو ان کے والدین نے اس لیے سکولوں سے اٹھا لیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ کسی بھی طرح کے اجتماع کو ڈرون سے نشانہ بنایا جاتا ھے۔ بش نے ڈرون حملوں کا جو پروگرام شروع کیا تھا اور جس کو اوبامہ نے وسعت دی اسمیں کئی سکولوں کو نشانہ بنایا گیا۔۔ بش کی ایک بدمعاشی نے 69 بچوں کو مارڈالا تھا
یہ تحقیقی رپورٹ دکھاتی ھے کہ بچے ڈرون کی آواز سنتے ہی خوف سے چیخنا شروع کردیتے ھیں ایک مقامی نفسیات دان کا کہنا ھے کہ یہ خوف اور دھشت ان کے لیے مستقل زھنی ازیت کا سبب بن رھا ھے ،ڈرون حملوں میں زخمی ھونے والے بچوں نے تحقیق کاروں کو بتایا کہ وہ سکول واپس جانے سے بہت زیادہ خوفزدہ ھیں اور اپنے مستقبل کی ہرامید چھوڑ بیٹھے ھیں، ان کے خواب بھی ان کے اجسام کی طرح ٹوٹ چکے ھیں!!
اوبامہ بچوں کو جان بوجھ کر نہیں مارتا مگر ان کی موت ان ڈرون حملوں کا ہی شناخسانہ ھے ھمیں علم نہیں ھے کہ صدر اوبامہ پر ان حملوں کا کیا جزباتی ردعمل ھوتا ھے کیونکہ نہ ہی کبھی وہ اور نہ اس کا کوئی اہلکار کبھی ان حملوں کو زیر بحث لاتا ھے پاکستان میں ھونے والی سی آئی اےکی قوانین سے برتر ایسی تمام کاروایئاں خفیہ رکھی جاتی ھیں مگر یہ آسانی سے جانا جاسکتا ھے کہ امریکی حکومت میں سے کسی کو اس کی پرواہ نہیں ھے          
نیو ٹاون امریکہ میں ھونے والے بچوں کے قتل سے صرف دو دن پہلے صدر اوبامہ کی پریس سیکرٹری سے یمن اور پاکستان میں ھونے والے ڈرون حملوں کے دوران مارے گئے عورتوں اور بچوں کے بارے میں جب پوچھا گیا تو اس نے یہ کہہ کر جواب دینے سے انکار کردیا کہ یہ معاملات "خاص" ھیں، اس کےبجائے اس نے صحافیوں کو اوبامہ حکومت کے انسداد دھشت گردی کے نائب جون برنین کی تقریر سے رجوع کرنے کا کہا۔۔ برنین کا اصرار ھے کہ القاعدہ کا معصوم عورتوں اور بچوں کو مارنا مسلمانوں کے اندر اس کے پیغام کو بدنام اور کمزور کرنے کا سبب بنا ھے
مگر جس حقیقت کو سمجھنے سے برنین قاصر دکھائی دیتا ھے وہ یہ ھے کہ ڈرون کی جنگ نے بعنیہ یہی کردار امریکہ کے لیے بھی ادا کیا ھے ۔برنین کے نزدیک پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں رھنے والے لوگ نہ ہی گھاس ھیں اور نہ ہی کوئی کیڑے مکوڑے۔۔اسں کے مطابق ڈرون کے ٹارگٹ معاشرے کے لیے ایک رستا ناسور ھے اور اس سے نکلتے ھوئے بیماری کے ریشے۔
ہر اس بندے سے خبردار رھو جو کہ ایک انسان کو انسانیت کے علاوہ کسی اور طرح سے بیان کرتا ھو
برنین "چھوٹے پیمانے" پر ھونے والے کولیڑول نقصان کا اعتراف کرتا ھے مگر اس کا دعوی یہ ھے کہ امریکہ معصوم زندگیوں کو بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ھے۔ ڈرون حملہ اسی وقت ھوتا ھے جب کہ امریکی زندگیوں کو کوئی خطرہ لاحق ھو
منظور شدہ حملوں کا نطریہ اوبامہ کے زیر تحت پیدا ھوا، جس کا کوئی قانونی سراغ نہیں ملتا، ان کی منظوری چند پیش کردہ خاکوں کی بنیاد پر دی جاتی ھے ، ایک خاکہ چند نامعلوم بندوں کا ھوسکتا ھے جو کہ بندوقیں اٹھائے کہیں جارھے ھوں مگر یہ ان کو ان علاقوں کی بقیہ آبادی سے متمیز کرنے کے لیے کافی نہیں اسی طرح یہ کچھ ایسے بندوں کا ھوسکتا ھے جو کہ زمین میں کچھ دبا رھے ھوں ۔ اسی لیے کئی شادی اور جنازے کی تقریبات نشانہ بنائی گئیں اسی طرح پچھلے مارچ میں اس اجتماع کو نشانہ بنایا گیا جہاں پر چالیس سردار ایک کرومایئٹ سرنگ سے نکلنے والی آمدن کا حساب کرنے کے لیے جمع ھوئے تھےیہ ان بہت سی وجوہات میں سے ایک ھے جس کی وجہ سے ان علاقوں میں بچے مارے جارھے ھیں.
اوبامہ نے شائد کبھی ہی ڈرون پروگرام کا یا ان بچوں کا زکر کیا ھوجو کہ ان حملوں میں مارے گئے۔ جنوری میں ھونے والی ایک ویڈیو کانفرنس میں اس کا ایک مختصر اور مبہم سا بیان موجود ھے،جس سے کچھ بھی اخذ کرنا کارے دارد ھے۔ اسمیں ان اموات کے جواز کا فیصلہ دوسروں پر چھوڑ دیا گیا ھے ۔ اکتوبر میں ڈیموکریٹک پارٹی کے کے رھنما جو کلین نے ایک ٹی وی چینل پر دعوی کیا تھا کہ "نیجہ ان سب باتوں کا یہ ھے کہ کس کا چارسالہ بچہ مارا جاتا ھے ؟ ہم صرف یہ کررھے ھیں کہ کہ ان ممکنات کو کم کیا جاسکے جس کی وجہ سے "یہاں امریکہ میں " کوئی چار سالہ بچہ کسی دھشت گردی کے واقعے میں مارا جاسکے ۔ جیسے کہ گلین گرین وارڈز نے بھی اس طرف اشارہ کیا کہ کسی چار سالہ بچے کو ماردینا وہ کام ھے جو کہ دھشت گرد کرتے ھیں یہ جوابی قتل کو نہیں روک سکتا یہ دھشت گردوں کو جوابی کاروائی پر اکساتا ھے اور ان میں غم اور غسے کے جذبات کے پیدا ھونے کا سبب ھے ۔
دنیا بھر کے اس میڈیا نے جس نے بجا طور پر نیو ٹاون میں بچوں کے قتل کی مزمت کی ھے، مگر اس نے  اوبامہ کے ہاتھوں ھونے والے بچوں کے قتل عام کو نظر انداز کردیا ھے یا اسی حکومتی موقف کو قبول کرلیا ھے کہ مارے جانے والے سارے دھشت گرد ھیں ۔ پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں مارے جانے والے بچے ہمارے بچوں کی مانند نہیں ھیں ان کا کوئی نام نہیں ،ان کے لیے کوئی تعزیتی گلدستے ،شمعیں یا ٹیڈی بیرز نہیں ۔ ان کا تعلق دوسری طرف کی غیر انسانی ،غیر حقیقی ،گھاس اور کیڑے مکوڑوں کی دنیا سے ھے!!
اوبامہ نے اتوار کو پوچھا تھا کہ کیا ہم یہ قبول کرنے کے لیے تیار ھیں کہ جس تشدد کا سامنا ہمارے بچوں کو سالہا سال سے ھے وہ ہماری آزادی کی قیمت ھے ؟
یہ ایک اہم سوال ھے ،مگر اسے اس کا طلاق اس تشدد پر بھی کرنا چاہیے جو کہ اس نے پاکستانی بچوں پر نازل کررکھا ھے

اصل تحریر کا لنک حسب زیل ھے
http://www.guardian.co.uk/commentisfree/2012/dec/17/us-killings-tragedies-pakistan-bug-splats