برطانوی ہائی کورٹ نے پاکستانی شہری کی جانب سے ڈرون حملوں میں برطانیہ کے کردار کی وضاحت سے متعلق درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حکومت کو ڈراون حملوں کی پالیسی کے بارے میں بتانے کا حکم نہیں دے سکتی۔
پاکستانی شہری نور خان نے برطانیہ کی ہائی کورٹ
میں ایک درخواست دائر کر رکھی تھی جس میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ وہ
حکومت کو حکم دے کہ وہ پاکستان میں کیے جانے والے ڈرون حملوں میں امریکہ سے اپنے تعاون کو واضح کرے۔ درخواست گزار کے وکلاء نے برطانوی ہائی
کورٹ کے سامنے موقف اختیار کیا تھا کہ خفیہ مواصلات کا برطانوی مرکز ( جی
سی ایچ کیو) امریکی سی آئی اے کو ایسی معلومات فراہم کرتا ہے جن کی مدد سے ڈرون حملے کیے جاتے ہیں۔
نور خان کے وکلاء نے برطانوی عدالت سے ڈرون حملوں
کو غیر قانونی قرار دینے کی استدعا نہیں کی تھی۔ البتہ عدالت میں
موقف اختیار کیا گیا تھا کہ برطانیہ ان حملوں میں مدد کرنے کی وجہ سے جنگی
جرائم اور ماورائے عدالت قتل کا مرتکب ہو رہا ہے۔
ہائی کورٹ کے جسٹس لارڈ موزز نے اپنے فیصلے میں
قرار دیا کہ وہ حکومت کو اپنی پالیسی منکشف کرنے کا حکم نہیں دے سکتے اور
حکومت کے خفیہ معاہدوں کی نگرانی پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔
پاکستان کے قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے نور
خان کے والد ایک ڈرون حملے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ ان کا موقف ہے کہ ان کے والد
ایک جرگے میں شریک تھے جب وہاں ڈرون حملہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے والد
کا القاعدہ یا طالبان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
یاد رہےکہ برطانیہ افغانستان میں بغیر پائلٹ کے ڈرون
طیاروں کا استعمال کرتا ہے لیکن وہ ڈراون حملوں میں امریکہ کی مدد کی نہ تو تصدیق یا تردید ہیں کرتا۔