Saturday, December 22, 2012

افغانستان میں قابض افواج کی موجودگی میں امن کا قیام ممکن نہیں : پیرس کانفرنس میں طالبان وفد کا موقف

پیرس میں ہونے والی اٖفغان رہنماوں کی کانفرنس میں شامل طالبان وفد نے اپنے اس دو ٹوک موقف کا اظہار کیا ہے کہ افغانستان میں حقیقی امن صرف غیر ملکی قابض افواج کے انخلا کے بعد ہی قائم ہوسکے گا۔


فرانسیسی خبر رسان ادارے اے ایف پی کے مطابق پیرس میں ہونے والی افغان رہنماوں کی تین روزہ کانفرنس میں غیر ملکی افواج کے ملک سے جانے پر تو تمام فریقین کا رہا تاہم اس انخلا کےطریقہ کار اور رفتار پر کئی اختلافات بھی سامنے آئے ہیں۔

افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ طالبان کے قطر میں موجود دفتر سے شہاب الدین دلاور اور محمد ندیم وردک نے تنظیم کی نمائندگی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ دنیا کو اپنا موقف بتانے اور اپنی رائے کا اظہار کرنے کے لیے آئے ہیں۔

طالبان کے نمائندوں نے کانفرنس کے شرکا کے سامنے پیش کیے گئے موقف میں کہا  کہ ’افغانستان میں حقیقی امن غیر ملکی فوجوں کے قبضے کے اختتام کے بعد ہی قائم ہو سکے گا۔ افغانستان میں اب کوئی بھی کٹ پتلی حکومت  کسی اور طاقت کے زور پر قابض نہیں رہ پائے گی۔ غیر ذمہ دارانہ اور غیر قانونی معاہدوں پر دستخط کرنے سے کوئی حل افغان عوام پر مسلط نہیں کیا جانا ممکن نہیں ہے۔  عملی اقدامات کے ذریعہ اس کو یقینی بنانا ہوگا کہ جنگ کی جگہ امن کو ترجیح دی جارہی ہے۔

 جب تک ’مجاہدین جیلوں میں ہیں اور ان پر تشدد کیا جا رہا ہے، حقیقی امن نا ممکن ہے۔ امریکہ اور دیگر فریقین کو افغان عوام کی مرضی کو تسلیم کرتے ہوئے ملک سے فوراً اپنے فوجی واپس بلا لینے چاہیئں اور فرانسس کی مانند دیگر غیر ملکی حکومتوں کو اپنے عوام کے مفادات کے بارے میں سوچنا چاہیے۔‘


افغان آئین کے بارے میں وفد کا موقف تھا کہ ایک آزاد ماحول اور افغان ماہرین کی نگرانی میں نیا آئین تیار کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ آئین اس لیے قانونی نہیں کیونکہ یہ ’قابض افواج  کے بی باون بمبار طیاروں کے سائے میں تیار کیا گیا ہے۔‘

طالبان نے دعوٰی کیا ہے کہ ’انتخابات افغان مسئلے کا حل نہیں کیونکہ آئندہ انتخابات غیر ملکی قبضے کے دوران ہی کروائے جائیں گے۔ ہم اس بات پر اصرار کرتے رہے ہیں کہ ہم اقتدار پر قابض نہیں ہونا چاہتے بلکہ ہم افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت چاہتے ہیں۔‘


اگرچہ مذاکرات کی حیثیت باضابطہ نہ ہونے کی وجہ سے اس کانفرنس کے اختتام پر کوئی دستاویز جاری نہیں کی گئی، تاہم کانفرنس کے دوران خیالات کا تبادلہ اور بلاتکلف بحث ہوئی۔ کانفرنس میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ بات چیت کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔