پاکستان میں حکومت اور سرکاری فورسسز کے ساتھ برسرے پیکار اور ملک میں کالعدم قرار دی گئی تنظیم، تحریک طالبان پاکستان نے حکومت کو جنگ بندی اور مفاہمت کی مشروط پیش کش کردی ہے۔

جیو نیوز کے مطابق کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے پیش کی جانے والی شرائط میں کہا گیا ہے کہ اگر حکومت ملک میں اسلامی اصولوں کے مطابق خارجہ پالیسی اپنا لے‘ ملک کے اندر جاری کردہ جنگی پالیسیوں کا خاتمہ کر ے۔ افغان جنگ میں امریکہ کے ساتھ جاری شراکت داری ختم کرے ۔ ملک میں اسلام سے متصادم قوانین کو منسوخ کرکے قرآن و سنت کی روشنی میں آئین پاکستان کا اجراء کیا جائے تو تحریک طالبان اور حکومت میں جاری جنگ ختم ہوسکتی ہے ۔
عصمت اللہ معاویہ نے اپنے تفصیلی خط میں لکھا ہے کہ پاکستانی فوج نے ہمیں افغانستان اور کشمیر کے محاذ سے کھینچ کر پاکستان کے محاذ پر لاکھڑا کیا ہے۔ اس لئے اصل مجرم فوج اور حکومت ہے ۔ ملک میں جاری جنگ کا آغاز حکومت اور فوج نے کیا، اس لئے ہم اپنے دفاع کا شرعی حق ہم رکھتے ہیں ۔ یہ بات کسی بھی عالم دین سے معلوم کی جاسکتی ہے کہ عزت‘ جان‘ مال اور ایمان کا دفاع شرعاً جہاد ہے یا نہیں۔
آج اگر پاکستانی فوج امریکا کے لئے کرائے کی فوج کا کردار ختم کر کے خالص مسلمان فوج بن جائے اور اہل اسلام پر بندوقیں تاننے کی بجائے ۱۷۹۱ء کا بدلہ لینے اور کشمیر کے لئے لڑے۔ تو طالبان کی صلاحیتیں اور قوتیں پاکستان کے لئے وقف ہوجائیں گی۔
اے این پی کے خلاف طالبان کی کاروائیوں کے دفاع میں عصمت اللہ معاویہ نے لکھاہے کہ اے این پی کو کیا پڑی تھی کہ اس نے فوج کی غلط پالیسی پر خود کو لاکھڑا کیا ہے۔ فوج کابل سے جنگ کو اسلام آباد کھینچ لائی اور اے این پی اس جنگ کو اسلام آباد سے باچا خان ہاؤس لے آئی ۔ شاید اے این پی کو ڈالروں کی چمک نے کچھ سوچنے نہ دیا۔ جرنیلوں کے ہاتھ آنے والے ڈالروں کی بھرمار سے اے این پی کی نظریں چندھیانے لگیں تھیں ۔ اس لئے اب اے این پی گلے پڑے اس ڈھول کو پیٹنے پر مجبور ہے اور ایسا ہی کردار ایم کیوایم کا بھی ہے ۔ قطع نظر اس کے کہ فوج اپنی پالیسیاں بدلتی ہے یا نہیں ‘ اے این پی اگر اپنی امریکہ نوازی کی پالیسی ترک کر دے اور اپنی غلط پالیسیوں پر معافی مانگے تو طالبان ان کے لئے عام معافی کے بارے میں غور کر سکتے ہیں ۔
اپنے خط میں انہوں نے لکھا ہے کہ طالبان مکمل طور سیاسی سیٹ اپ کے خلاف نہیں ہیں۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام پر ہونے والے حملوں پر تحریک طالبان کے اندر بھی تشویش پائی جاتی ہے۔ تحریک کی جانب سے کبھی ایسا بیان نہین دیا گیا کہ یہ حملے ہم نے کئے اور نہ ہی تحریک نے ان حملوں کی تحسین کی ہے۔ لہذا ان حملوں کا الزام تحریک پر لگانا مناسب نہیں۔ آئندہ بھی تحریک ان پر حملوں کے کسی منصوبے پر غور نہیں کررہی ہے ۔ البتہ جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کو اپنے بیانات پر غور کرنا چاہیے کیونکہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔
ان کا لکھنا ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے بارے میں تحریک سکوت اختیار کئے ہوئے ہے ۔ اگر آئندہ سیٹ اپ میں یہ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک فوج کے ہاتھ میں چھڑی بنتے ہیں تو پھر میدان اور گھوڑا حاضر ہے ۔ لیکن اگر یہ جماعتیں ملک دشمن اور اسلام دشمن پالیسیوں سے خود کو جدا کردیتی ہیں جیسا کہ ہم ان سے توقع رکھتے ہیں تو پھر ہمارے مستقبل کے لائحہ عمل میں بھی غیرسنجیدگی نظر نہیں آئے گی ۔
اپنے خط میں عصمت اللہ معاویہ نے مزید لکھا ہے کہ پاکستان ہمارا ملک ہے ۔ اس کی گلیوں، بازاروں بلکہ جنگلوں اور بیابانوں سے بھی ہمیں محبت ہے مگر اس محبت کے عوص ہم اپنے دین کی قربانی نہیں دے سکتے۔ انہوں نے لکھا کہ ہمارے میڈیا کے اکثر صحافی اور اینکرپرسن طالبان کے خلاف یک طرفہ ٹریفک چلاتے ہیں کیونکہ دوسری طرف انہیں پمرا کی دیوار کا سامنا ہے ۔ ہمارے لئے اگر یہ لوگ ” مسلمان تو کیا انسان کہلانے کے بھی حقدار نہیں“ جیسے جملوں کا استعمال کریں ۔ سیاستدان بھی (ہمارے لئے) خونخوار‘ بھیڑیے اور درندے جیسے الفاظ چنیں تو پھر ہم سے بھی پھولوں کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔
ان کا لکھنا ہے کہ ہماری کسی سے ذاتی لڑائی نہیں ہے‘ یہ ایک نظریاتی جنگ ہے ۔ ہماری جنگ اورنفرت کا سبب ہمارا محبوب و مقدسنظریہ جہاد ہے جو ہمیں اپنی جان و مال سے بھی زیادہ محبوب ہے۔
جیو نیوز کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے نامعلوم مقام سے ٹیلی فون کے ذریعے اس کے ایک نمائیدے سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ عصمت اللہ معاویہ کے اس خط کو تحریک طالبان پاکستان کا موقف سمجھا جائے۔
اپنے خط میں انہوں نے لکھا ہے کہ طالبان مکمل طور سیاسی سیٹ اپ کے خلاف نہیں ہیں۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام پر ہونے والے حملوں پر تحریک طالبان کے اندر بھی تشویش پائی جاتی ہے۔ تحریک کی جانب سے کبھی ایسا بیان نہین دیا گیا کہ یہ حملے ہم نے کئے اور نہ ہی تحریک نے ان حملوں کی تحسین کی ہے۔ لہذا ان حملوں کا الزام تحریک پر لگانا مناسب نہیں۔ آئندہ بھی تحریک ان پر حملوں کے کسی منصوبے پر غور نہیں کررہی ہے ۔ البتہ جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کو اپنے بیانات پر غور کرنا چاہیے کیونکہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔
ان کا لکھنا ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے بارے میں تحریک سکوت اختیار کئے ہوئے ہے ۔ اگر آئندہ سیٹ اپ میں یہ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک فوج کے ہاتھ میں چھڑی بنتے ہیں تو پھر میدان اور گھوڑا حاضر ہے ۔ لیکن اگر یہ جماعتیں ملک دشمن اور اسلام دشمن پالیسیوں سے خود کو جدا کردیتی ہیں جیسا کہ ہم ان سے توقع رکھتے ہیں تو پھر ہمارے مستقبل کے لائحہ عمل میں بھی غیرسنجیدگی نظر نہیں آئے گی ۔
اپنے خط میں عصمت اللہ معاویہ نے مزید لکھا ہے کہ پاکستان ہمارا ملک ہے ۔ اس کی گلیوں، بازاروں بلکہ جنگلوں اور بیابانوں سے بھی ہمیں محبت ہے مگر اس محبت کے عوص ہم اپنے دین کی قربانی نہیں دے سکتے۔ انہوں نے لکھا کہ ہمارے میڈیا کے اکثر صحافی اور اینکرپرسن طالبان کے خلاف یک طرفہ ٹریفک چلاتے ہیں کیونکہ دوسری طرف انہیں پمرا کی دیوار کا سامنا ہے ۔ ہمارے لئے اگر یہ لوگ ” مسلمان تو کیا انسان کہلانے کے بھی حقدار نہیں“ جیسے جملوں کا استعمال کریں ۔ سیاستدان بھی (ہمارے لئے) خونخوار‘ بھیڑیے اور درندے جیسے الفاظ چنیں تو پھر ہم سے بھی پھولوں کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔
ان کا لکھنا ہے کہ ہماری کسی سے ذاتی لڑائی نہیں ہے‘ یہ ایک نظریاتی جنگ ہے ۔ ہماری جنگ اورنفرت کا سبب ہمارا محبوب و مقدسنظریہ جہاد ہے جو ہمیں اپنی جان و مال سے بھی زیادہ محبوب ہے۔
جیو نیوز کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے نامعلوم مقام سے ٹیلی فون کے ذریعے اس کے ایک نمائیدے سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ عصمت اللہ معاویہ کے اس خط کو تحریک طالبان پاکستان کا موقف سمجھا جائے۔