Saturday, December 29, 2012

دنیا بھر کے علماء امریکی ایجنڈے پر منعقدہ "علماء کانفرنس" کا بائیکاٹ کریں۔ افغان طالبان

افغان طالبان نے ملک میں 2013 کے آغاز میں بلائی جانے والی علماء کانفرنس کو مسترد کرتے ہوئے عالم اسلام کے مذہبی رہنماؤں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس کانفرنس میں شرکت نہ کریں کیوں کہ یہ کانفرنس سراسر امریکی ایجنڈے کی تکمیل اور جہاد کے ثمرات کو ضائع کر نے کے لئے منعقد کی جا رہی ہے۔

عالمی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اﷲ مجاہد نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگرچہ اس کانفرنس میں مذہبی علماء کو افغانستان کی حکومت نے دعوت دی ہے لیکن یہ کانفرنس سراسر امریکی ایماء پر’گیارہ سالہ جہاد کے بعد اس کے ثمرات سے عالم اسلام کو محروم کرنے کے لیے بلائی جا رہی ہے۔

امریکہ پر سخت تنقید کرتے ہوئے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک، افغانستان میں سخت دباؤ کا شکار ہیں اور اس لئے افغانستان سے اپنی فوجوں کی محفوظ واپسی کی راہیں بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا امریکہ اس وقت ایک عبرت ناک شکست کے دھانے پر موجود ہے اور اسی دباؤ کے باعث اب وہ عالم اسلام کے علماء سے یہ توقع کر رہا ہے کہ وہ اس کے لئے ’نجات دہندہ‘ بن جائیں۔

افغان طالبان کے ترجمان نے اپنے بیان میں دنیا بھر، خصوصاً افغانستان، سعودی عرب، پاکستان ، ہندوستان، دارالعلوم دیوبند اورجامعہ الازہر کے علماء کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے علماء کہا گیا ہے کہ اگر انہوں نے اس کانفرنس میں شرکت کی تو تاریخ میں ان کا نام "دشمن کے اہلکاروں" کی حیثیت سے رقم ہو جائے گا۔

یاد رہے کہ گزشتہ ماہ صلاح الدین ربانی کی قیادت میں افغان "امن کونسل" کے اعلیٰ سطحی وفد کے پاکستان کےدورے کے دوران ایک بین الاقوامی علماء کانفرنس بلانے کی تجویز دی گئی تھی، جس کا مقصد امریکی فوج کے انخلاء کے بعد بھی طالبان حملوں کے خلاف معتبر علماء سے فتوے لینا ہے۔

مبصریں کے مطابق افغانستان میں امریکی حمایت سے قائم ہونے والی کرزئی حکومت کی کوشش ہے کہ وہ عالم اسلام کے معتبر علماء سے غیر ملکی فوجوں کے انخلاء بعد طالبان اور دیگر مزاحمت کاروں کے حملوں کے حرام ہونے کا فتوایٰ حاصل کر لے۔ تاکہ جس طرح روسی فوجوں کے افغانستان سے انخلاء کے بعد نجیب انتظامیہ اپنا وجود برقراد نہیں رکھ سکی تھی اب وہ اس صورتحال کا شکار نہ ہوں۔

دوسری جانب امریکہ اور نیٹو کی بھی یہی کوشش ہے کہ وہ اپنی فوجوں کو بھی کسی بڑے جانی نقصان کے بغیر افغانستان سے نکالنے میں کامیاب ہو جائیں اور افغانستان میں ان کی حمایت یافتہ حکومت بھی قائم رہے۔