مصر میں اسلامی دستور کی منظوری کے لیے منعقد ہونے والے ریفرنڈم کے پہلے مرحلے میں اسلام پسندوں کو ان کی امیدوں سے زیادہ کامیابی ملی ہے۔

مصر کے روزنامے الاخبار کے مطابق 59 فیصد عوام نے نئے آئین کی منظوری کے لیے ووٹ دیا ہے جبکہ اتوار کی صبح مرسی کی حامی فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی نے اپنی ویب سائٹ پر جاری کیے گئے ایک بیان میں اس آئین کے حق میں ووٹ ڈالنے والوں کی شرح 57 فیصد ہو نے کی توقع کا اظہار کیا تھا۔
مصر سے موصولہ اطلاعات کے مطابق دالحکومت قاہرہ میں معمولی فرق سے اسلامی آئین کی مخالفت میں ڈالے جانے والے ووٹوں کا تناسب زیادہ رہا ہے۔ لیکن ملک کے دوسرے بڑے شہر سکندریا کے عوام کی بھاری اکثریت نے اس آئین کے مسودے کے حق میں رائے دے کر پہلے مرحلے میں مجموعی برتری قائم کر نے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
برطانوی خبررساں ادارے رائیٹر کے مطابق ہفتہ کو منعقد ہونے والے اس ریفرنڈم کے موقع پر عوامی ٹرن آؤٹ بہت ہی زیادہ رہا ہے۔ جس کی وجہ سے پولنک کے وقت میں چار گھنٹوں کی توسیع کر دی گئی تھی کیونکہ متعدد پولنگ اسٹینشوں کے باہر لوگوں کی ایک بڑی تعداد مقررہ وقت کے ختم ہو جانے کے بعد بھی موجود تھی۔
ریفرنڈم کے موقع پر سلامتی کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے ایک لاکھ بیس ہزار فوجی اور ایک لاکھ تیس ہزار پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔
دوسرے مرحلے کی ووٹنگ مصر کے 17 صوبوں میں منعقد ہو گی۔ ناقدین کے مطابق جن کی اکثریت قدامت پسند علاقوں پر مشتمعل ہے۔ اس لئے ان صوبوں کے نتائج سامنے آنے پر اسلام پسندوں کی طرف سے تیار کیے گئے آئین کے حق میں ڈالے جانے والے ووٹوں کا تاسب بہت زیادہ ہو جائے گا۔
مصری عوام مجوزہ آئین کو منظور کر لیتے ہیں تو صدر محمد مرسی پارلیمان کے ایوان زیریں کے لیے انتخابات کا اعلان کر دیں گے جبکہ دوسری صورت میں آئندہ تین ماہ کے دوران دستور ساز اسمبلی کے لیے نئے انتخابات منعقد کروائے جائیں گے۔