
جرمن نشریاتی ادارے کے مطابق دمشق کے نواحی علاقوں، زہرہ، معمدیت، الشام، داریا اور الزبدانی سمیت
متعدد علاقوں میں باغیوں کے ٹھکانوں پر جنگی طیاروں سے بمباری اور ٹینکوں
کے ذریعے شیلنک کی ہے۔ جواباً مسلح باغی بھی حکومتی اہداف کو نشانہ
بنا رہے ہیں۔
شامی حکومت کے خلاف دارالحکومت کے اردگرد لڑائی کا دائرہ شہر کے مرکز سے8 سے 20 کلومیٹر کے علاقے میں پھیلا ہوا ہے جو اسد
حکومت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ دمشق کے ہوائی اڈے کا محاصرہ
کرنے والے باغیوں کی قیادت نے ہوائی اڈے کو جنگی علاقہ قرار دے دیا ہے۔
تاہم وہ یہ تسلیم کررہے ہیں کہ ابھی تک ہوائی اڈہ شامی فوج کے کنٹرول میں ہی
ہے۔
باغیوں کے ترجمان نبیل العامر کا کہنا ہے کہ شامی فضائی فوج کی کارروائیوں
کو روکنے کے لیے دمشق کے ہوائی اڈے پر قبضہ کرنا بہت ضروری ہو گیا
ہے۔ باغیوں نے سویلین آبادی کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ہوائی اڈے سے دور رہیں۔
اسی دوران ترکی کے علاقے اناطولیہ میں شامی باغیوں کی مختلف تنظیموں کی ایک
خصوصی میٹنگ میں ایک متحدہ قیادت کا انتخاب کیا گیا۔ باغیوں کی اس مشترکہ ملٹری
کمانڈ میں تیس ممبران شامل ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس میٹنگ میں جاری لڑائی کی کمانڈ مغرب کی نظر میں انتہاپسند کہلانے والی مسلمان مسلح تنظیموں کے لیڈروں کو تفویض کی گئی ہے۔ جبکہ شام کی فوج سے منحرف ہو کر آنے والے بعض سیکولر نظریات رکھنے والے سینئر افسروں کو قیادت کے قابل نہیں سمجھا گیا، جن میں سیریئن فری
آرمی کے کمانڈر کرنل ریاض اسد اور جنرل حسین حاج علی اہم ہیں۔