
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق کشمیر میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم بھارتی رضاکاروں کی جانب سے جاری کی گئی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فرضی جھڑپوں، حراست کے دوران تشدد کے زریعے قتل اور جنسی زیادتیوں
کے 214 واقعات میں 235 فوجی اہلکاروں، 123 نیم فوجی دستوں کے اہلکاروں، 111 پولیس اہلکاروں اور11 فوج کے تنخواہ دار مسلح ایجنٹوں کو ملوث پایا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ملوث اہلکاروں میں فوج کے 2 میجر جنرل، 3
بریگیڈیئر، 9 کرنل، 3 لیفٹنٹ کرنل، 78 میجر اور 25 کیپٹن شامل
ہیں۔ ان کے علاوہ نیم فوجی اداروں کے 37 سینیئر افسر، مقامی پولیس کے
ایک انسپکٹر جنرل اور ایک ریٹائرڈ سربراہ پر بھی ان کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
رپورٹ میں عسکریت پسندوں یا ان کے ہمدردوں کی ہلاکت کے لیے فورسز کو انعامات یا اعزازات دینے کے طریقہ کار سے متعلق بھی تفصیلات ہیں۔ اس میں کشمیر کے سرکاری حکام کا وہ اعتراف بھی شامل کیا گیا
ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ دو ہزار سے زائد پولیس افسروں اور
اہلکاروں کو انسداد عسکریت پسندی کے لیے سونے کے میڈل، نقد انعامات اور
نوکریوں میں ترقیاں دی گئیں۔
اقوامِ متحدہ کے ایک سابق اعلیٰ اہلکار کارتِک
مُرُو کوٹلا نے کہا ہے کہ ’گذشتہ بائیس سال کا ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت ہند، فوج یا دوسری فورسز کے انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث اہلکاروں کو مستقبل میں بھی سزا نہیں دے گی۔
ہندوستان کی غیر سرکاری تنظیم ’’کولیش آف سول سوسائٹیز‘‘ کے سربراہ پرویز امروز نے اس رپورٹ کے بارے میں بات
کرتے ہوئے کہا ’صاف ظاہر ہے کہ جو کچھ بھی بائیس سال میں ہوا وہ محض حادثہ
نہیں بلکہ ایک منظم پالیسی کا نتیجہ ہے۔