Friday, December 28, 2012

مصر میں اسلام پسندوں کو قانون سازی کا اختیار ملنے پر سیکولر حلقوں کو تشویش لاحق ہو گئی

مصر میں نئے آئين کے نفاذ کے ساتھ ايوان بالا کو قانون سازی کا اختيار ملنے پر ملک کے سیکولر حلقوں میں شدید تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

 مصری پارليمنٹ کا ايوان بالا شوریٰ کونسل ہےجس کے 270 اراکين ميں سے دوتہائی کو عوامی ووٹوں کے زریعے منتخب کيا گيا ہے۔ اس وقت اس ایوان میں اسلام پسندوں کو اکثريت حاصل ہے اور اگلے دو ماہ تک منتخب ہونے والے نئے ايوان زيريں کی تشکيل تک اسی نے ملکی قوانين وضع کرنے ہیں۔ 
مصری شورٰی کا اجلاسمصری شورٰی کا اجلاس
اگر چہ نئے آئین کے نفاذ کی وجہ سے صدر مرسی کو حاصل قانوں سازی کا اختیار ختم ہو گیا ہے تاہم قاہرہ کے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ شوریٰ کونسل ميں جہاں اسلام پسندوں اور اخوان المسلمون کو اکثريت حاصل ہے، مرسی ہی کے نظريات پر عمل کيا جائے گا۔

 مصری قانون دان ياسرعبدالرحيم نے مصری قانون سازی کے طریقہ کار پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا ہے کہ اگر شوریٰ کونسل نے ايک اسلامی رياست کے قيام کے ليے فل فور نئے قوانين منظور کرنے کی کوشش کی تو ان قوانين کو بعد ميں نئے منتخب ہونے والے ايوان زيريں ميں منظوری کے ليے پيش کرنا ہوگا۔ اگر ايوان بالا اور ايوان زيريں قوانين پر متفق نہيں ہو سکے تو ايک ثالثی کميشن ان پر غور کرے گا۔ جہاں ايوان زيریں دو تہائی اکثريت سے قوانين کو نا منظور کر سکتا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ مصری اپوزیشن جو سیکولر حلقوں پر مشتعمل ہے اس صورتحال میں سخت اضطراب کا شکار ہے۔ وہ کسی یک لائحہ عمل کو اپنے لئے محفوظ راستے کر طور پر منتخب کرنے سے قاصر ہے۔ ایک جانب وہ آئینی ریفرینڈم میں اسلام پسندوں کو حاصل ہونے والی تاریخی کامیابی کے نفسیاتی اثر سے باہر نہیں نکل پا رہی۔ جبکہ دوسری جانب اگلے 2 ماہ کے اندر ہونے والے ایوان زیریں کے انتخابات میں بھی اسے کامیابی کے کوئی خاص امکانات نظر نہیں آرہے۔

 اسی ليے اپوزيشن اکثريت حاصل کرنے کے ليے آئین پر اعتراض اور مرسی حکومت کی غلطیوں کو بنیاد بنا کر ووٹروں کو اپنا حامی بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ مصری اپوزیشن حلقوں کو اس پر سخت اعتراض ہے کہ نئے آئين کے بہت سے حصوں کی بنياد اسلامی شريعہ پر رکھی گئی ہے۔ اس ميں عورت اور مرد کی برابری کی بھی صراحت سے حمايت نہيں کی گئی ہے۔ اس نئے آئين ميں مذہبی آزادی بھی صرف تينوں ابراہيمی مذاہب، يعنی مسيحيوں، يہوديوں اور مسلمانوں ہی کو دی گئی ہے۔
نئے آئين پر ديے گئے ووٹوں کی گنتینئے آئين پر ديے گئے ووٹوں کی گنتی
مصر کی سیکولراپوزیشن کو خدشہ ہے کہ ایوان زیریں میں اکثریت کے حصول کے بعد اسلام پسند بتدریج ملک میں اسلامی قوانین کے نفاذ کے لئے موجودہ آئین میں ترامیم کریں گے۔  

ایک مصری صحافی احمد عصمت نے کہا کہ اگر آنے والے انتخابات ميں اخوان المسلمون اور سلفيوں کے اتحاد نے ايوان زيريں ميں بھی اکثريت حاصل کر لی تو پھر وہ جس طرح کی چاہے قانون سازی کریں۔ سیکولر اپوزيشن صرف سڑکوں پر احتجاج کر سکے گی۔
اپوزیشن مصری عوام کے لئے کوئی متبادل لائحہ عمل تو ابھی تک پیش نہیں کر سکی لیکن اس کا سارا دارومدار مصری بجٹ کے بڑھتے ہوئے خسارے اور امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے اقتصادی حالت کی خرابی کا پرچار کر کے عوامی ہمدردیوں کے حصول پر ہے۔ 

بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اگر مرسی حکومت نے کسی جلد بازی کا مظاہرہ نہ کیا۔ اور تحمل سے حالات کے مطابق فیصلہ سازی پر عمل کرتی رہی تو، اپوزیشن تمام تر بین القوامی حمایت اور وسائل کے باوجود مستقبل میں انہیں ملک میں اسلامی شرعیت نافذ کرنے سے نہیں روک پائے گی۔