Friday, December 21, 2012

اکستانی پولیس، خفیہ ایجنسیوں کے نئے اختیارات پر تحفظات کا اظہار

پاکستان میں قومی اسمبلی نے پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کو مشتبہ افراد کی ٹیلی فون کالز، ای میلز اور ایس ایم ایس پیغامات کی نگرانی کا اختیار  دینے کے لیے جو مسودہء قانون منظور کیا ہے، اس پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
'فیئر ٹرائل 2012‘ نامی یہ بل جمعرات کو قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا اور حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم اور حزب اختلاف کی پارٹی مسلم لیگ ن نے بھی اس بل میں خامیوں کی نشاندہی کی تھی۔ اس نئے مسودہ قانون کے تحت الیکٹرونک آلات اور ٹیکنالوجی کے ذریعے حاصل کیے گئے شواہد کو عدالتوں میں قابل قبول شہادتوں کے طور پر پیش کیا جا سکے گا۔ اس سے قبل مواصلاتی نوعیت کے شواہد کو عدالتوں میں قانونی حیثیت حاصل نہیں تھی۔
’ملک سے دہشت گردی کے خاتمے اور امن و امان کے قیام کے لیے جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے‘
 
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی سربراہ زہرہ یوسف کا کہنا ہے کہ اس قانون سے شہریوں کے بنیادی حقوق متاثر ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ انہوں نے کہا، ’خفیہ ایجنسیاں معلومات ویسے بھی اکٹھی کرتی ہیں۔ مگر جب انہیں شہریوں کی ای میلز اور ٹیلی فون کالز تک رسائی ملے گی، تو اس کے غلط استعمال کا بہت اندیشہ ہے اور یہ بھی کہ یہ شہادتیں عدالت میں پیش ہو سکتی ہے، تو ظاہر ہے اس سے شہریوں کی پرائیویسی کی خلاف ورزی بھی ہوتی ہے۔ انہوں (حکومت) نے اس قانون کو انسانی حقوق کے پس منظر میں نہیں دیکھا‘۔
حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے سینیٹر بابر اعوان کا کہنا ہے کہ ملک سے دہشت گردی کے خاتمے اور امن و امان کے قیام کے لیے جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا، ’پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے، جو پہلے ہی بھاری قانون سازی کے لیے جانے جاتے ہیں، جہاں پہلے ہی بہت سارے قانون موجود ہیں اور قانون بنا کر ہم کتابوں اور قوانین کا ڈھیر لگاتے جائیں اور اس کے نفاذ کا نظام نہ ہو، تو قانون نہیں چلے گا‘۔
حزب اختلاف کی پارٹی مسلم لیگ ن نے بھی اس بل میں خامیوں کی نشاندہی کی تھی
 
ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ن کا کہنا ہےکہ اس نئے قانون کے سیاسی انتقام اور مفادات کے لیے استعمال کیے جانے کا خدشہ بھی موجود ہے۔ مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی نصیر بھٹہ نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ یہ قانونی مسودہ آئین میں دیے گئے بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہے۔
نصیر بھٹہ نے کہا، ’بنیادی حقوق تو کسی شخص کی زندگی، آزادی اور پرائیویسی کا تحفظ کرتے ہیں۔ لیکن اس بل کے اندر تحفظ نہیں بلکہ خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں میں آلہ دے دیا گیا ہے کہ وہ جس کی اور جیسے چاہیں، جاسوسی کریں۔ تو میرے خیال میں اس کی حساسیت بہت زیادہ ہے، دیکھنا ہو گا کہ تحقیقاتی ایجنسیاں اس معیار پر کس حد تک پورا اترتی ہیں‘۔
ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کئی عام شہریوں کا کہنا تھا کہ اس قانون کے تحت ایجنسیوں کو بے پناہ اختیارات مل جائیں گے، جس سے عام شہریوں کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
ان خدشات کے برعکس وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کا کہنا ہے کہ اس مجوزہ قانون سے دہشت گردوں کو شکست دینے میں مدد ملے گی.

بشکریہ : وایس آف جرمنی (ڈی ڈبلیو)