امریکہ کے فوجی کمانڈر جنرل جان ایلن نے امریکی حکومت کو تجویز دی ہے کہ 2014
کے بعد بھی کم ازکم 6 ہزاریا پھر 20 ہزار امریکی فوجی افغانستان میں تعینات
رکھے جائیں۔

ایک امریکی اہلکار کا کہنا ہے کہ ہمیں امید ہے کہ افغان صدر کرزئی کے 2013 میں ہونے والے امریکہ کے دورے کے دروان ہم کسی معاہدے تک پہنچ جائیں گے۔ اس اہلکار کے مطابق صدر اوباما افغانیوں کو یہ یقین دہانی کرائیں گے کہ ان کے اتحادی امریکی ان کے پیچھے کھڑے ہیں۔ باراک اوباما کی صدر کرزئی کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں سب سے اہم موضوع 2014 کے بعد امریکی فوجیوں کی افغانستان میں تعینانی ہوگا۔
امریکی اخبار کے مطابق اس وقت افغانستان میں امریکی فوجوں کی تعداد تقریبا 68 ہزار ہے۔ جنہوں نے دیگر ممالک کی افواج کے ہمرا 2014 تک افغانستان سے نکل جانا ہے۔ موجودہ منصوبے کے تحت اس کے بعد تمام فوجی اور
سیکورٹی کی ذمہ داریاں افغانوں کے حوالے کر دی جائیں۔
امریکی اخبار کے مطابق اقوامِ متحدہ میں
امریکہ کے سابق سفیر جان بولٹن کا خیال ہے کہ افغان سیکورٹی فورسزاس قابل
نہیں ہیں کہ امریکیوں کے نکل جانے کے بعد یہ ذمہ داریاں آدا کر سکیں۔ اس لئے امریکی حکام افغانستان کے مستقبل کے بارے میں سخت مایوسی کا شکار ہیں۔
سابق سفیر کا کہنا ہے کہ 2014 میں امریکی
فوجوں کے افغانستان سے نکل آنے کے بعد طالبان ایک بار
پھر افغانستان پر کنٹرول حاصل کر لیں گے، اگرچہ امریکہ کے نقطہ نظر سے یہ
انتہائی منفی نتیجہ ہو گا۔ لیکن امریکہ کے افغانستان سے نکلنے کی صورت میں یہ امر یقینی ہے کہ طالبان اور القاعدہ کو اقتدار
واپس مل جائے گا، اور اس کی وجہ سے امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک کے لیے
جو خطرات پیدا ہوں گے ان کا صرف تصور ہی دل دھلا دینے کے لئے کافی ہے۔
امریکہ کے سابق وزیرِ دفاع ولیم
کوہن کہتے ہیں کہ2014 کے بعد بھی افغانستان میں بین الاقوامی فورس ضرور موجود
رہنی چاہیے۔ یہ کام صرف امریکہ پر نہیں چھوڑا جا سکتا بلکہ دیگر ممالک کو بھی اس کا احساس کرنا چاہیئے۔ یہی چیز دنیا کے مفاد میں ہے، اگر ہم بھی دیگر ممالک کے ہمرا وہاں سے چلے آئے تو بھر اس کے بعد کوئی اچھی صورتِ حال نہیں ہو
گی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق
بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد وہاں دوبارہ طالبان کا اقتدار قائم ہو سکتا ہے اس
لیے افغانستان پر منڈلاتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کے لیے وہاں امریکی فوجیوں
کی طویل عرصے تک تعیناتی کی بات کی جا رہی ہے۔
افغانستان میں طالبان کے زیر قیادت ہونے والی بغاوت سے
نمٹنے والے غیر ملکی فوجیوں کی تعداد 1لاکھ 50 ہزار سے کم ہو کر 1لاکھ تک رہ گئی ہے۔