امریکی
حکومت کا کہنا ہے دنیا کے مطلوب ترین شخص اور القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے قتل اور تدفین کی تصاویر بہت خطرناک ہیں اگر انھیں جاری کیا گیا تو اس سے
امریکہ کی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہوں گے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق امریکی محکمہ انصاف کے اٹارنی رابرٹ لوئب نے ایک عدالت میں دیے اپنے بیان میں
کہا کہ ان تصاویر کی اشاعت سے امریکہ کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوگا اور ان سے امریکہ پر جوابی حملوں کی ترغیب بھی ملے گی۔
عدالت کے دو ججوں جوڈتھ راجرز اور میرک گارلینڈ نے اپنے ریمارکس میں اپنے اس خوف کا اظہار کیا کہ ان میں سے کسی بھی تصویر جاری کرنے سے لیبیا کے شہر بن غازی میں امریکی قونصل خانے پر حملے کی طرح امریکیوں پر مزید حملوں کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ تاہم تین ججوں پر مشتمل پینل نے یہ نہیں بتایا کہ وہ اس درخواست پر کب اپنا حکم جاری کرے گا۔
امریکا کی ایک فیڈرل اپیلز کورٹ القاعدہ کے مقتول سابق سربراہ اسامہ بن لادن کی امریکی نیوی سیلز کی خصوصی ٹیم کی کارروائی میں قتل اور سمندر میں ان کی تدفین کی تصاویر جاری کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کررہی ہے۔
اپیلز کورٹ میں انسانی حقوق کی ایک تنظیم جوڈیشیل واچ نے ایک ماتحت عدالت کے 2012ء کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کررکھی ہے جس کے تحت اسامہ بن لادن کے پاکستان کے شہرایبٹ آباد میں واقع کمپاؤنڈ سے ملنے والی باون تصاویر اور ویڈیوز کے اجراء پر پابندی برقرار رکھی گئی تھی۔
جوڈیشیل واچ کے وکیل مشعل بیکشا نے کہا کہ ان کا گروپ تمام تصاویر کا اجراء نہیں چاہتا ہے بلکہ وہ بھی اشتعال کا سبب بننے والی تصاویر کے اجراء کے خلاف ہے۔ تاہم حکومت اس بات کا ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے کہ اسامہ بن لادن کی بعد از موت تمام باون تصاویرغیرمعمولی نقصان کا سبب بن سکتی ہیں۔

عدالت کے دو ججوں جوڈتھ راجرز اور میرک گارلینڈ نے اپنے ریمارکس میں اپنے اس خوف کا اظہار کیا کہ ان میں سے کسی بھی تصویر جاری کرنے سے لیبیا کے شہر بن غازی میں امریکی قونصل خانے پر حملے کی طرح امریکیوں پر مزید حملوں کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ تاہم تین ججوں پر مشتمل پینل نے یہ نہیں بتایا کہ وہ اس درخواست پر کب اپنا حکم جاری کرے گا۔
امریکا کی ایک فیڈرل اپیلز کورٹ القاعدہ کے مقتول سابق سربراہ اسامہ بن لادن کی امریکی نیوی سیلز کی خصوصی ٹیم کی کارروائی میں قتل اور سمندر میں ان کی تدفین کی تصاویر جاری کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کررہی ہے۔
اپیلز کورٹ میں انسانی حقوق کی ایک تنظیم جوڈیشیل واچ نے ایک ماتحت عدالت کے 2012ء کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کررکھی ہے جس کے تحت اسامہ بن لادن کے پاکستان کے شہرایبٹ آباد میں واقع کمپاؤنڈ سے ملنے والی باون تصاویر اور ویڈیوز کے اجراء پر پابندی برقرار رکھی گئی تھی۔
جوڈیشیل واچ کے وکیل مشعل بیکشا نے کہا کہ ان کا گروپ تمام تصاویر کا اجراء نہیں چاہتا ہے بلکہ وہ بھی اشتعال کا سبب بننے والی تصاویر کے اجراء کے خلاف ہے۔ تاہم حکومت اس بات کا ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے کہ اسامہ بن لادن کی بعد از موت تمام باون تصاویرغیرمعمولی نقصان کا سبب بن سکتی ہیں۔