
انڈونیشیا کے مقامی زرائع ابلاغ کے مطابق آچے کے عوام میں ان قوانین کے نفاز کے بارے میں زبردست جوش وخروش پایا جاتا ہے۔ مقامی مذہبی اور عوامی رہنماوں نے اِن نئے ضابطوں کا خیر مقدم کیا ہے اور انکی مکمل حمایت کی یقین دھانی کرائی ہے۔
تاہم بین القوامی انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے آچے کے مقامی قوانین کو اظہار کی آزادی، جماعت سازی اور مذہبی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف قرار دے کر ان نئے ضابطوں کو بڑے پیمانے پر نکتہ چینی کا ہدف بنایا ہے۔
یاد رہے کہ 2005ء میں انڈونیشیا کی مرکزی حکومت اور آچے کے علیحدگی پسندوں کے درمیان طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت آچے کو علاقائی خودمختاری دی گئی تھی۔ اس معاہدے اور بعد وہاں اسلامی شریعہ کو بطور قانون نافذ کیا گیا تھا۔
انڈونیشیا کی وزارت داخلہ اب تک ملک میں اسلامی اخلاقیات پر مبنی 2 ہزار سے زائد مقامی قوانین پر عمل درآمد کو روک چکی ہے، تاہم آچے میں شریعہ کے کسی قانون کو روکا نہیں گیا ہے۔