افغانستان میں مجاہدیں سے تعلق کے الزام میں گرفتار بچوں کو افغان اور قابض افواج کے اہلکار شدید تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں، ان پر تشدد کے لیے مار
پیٹ اور بجلی کے جھٹکوں کے علاوہ کئی دیگر ازیت رسانی کے طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق تشدد کے ذریعے جن لوگوں سے جرائم کا اقرار کروایا گیا ان میں سے زیادہ تعداد 18 سال سے کم عمر نوجوانوں کی ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2011ء سے اکتوبر 2012ء کے دوران 635 قیدیوں سے معلومات حاصل کی تھیں، ان میں سے تقریباً نصف سے زائد کو ایسے مراکز پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا جو افغان پولیس اور نیشنل ڈائریکٹوریٹ فار سکیورٹی کے زیر انتظام ہیں۔ اور باقی نصف کو قابض افواج کے زیر انتظام حراستی مراکز میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2011ء سے اکتوبر 2012ء کے دوران 635 قیدیوں سے معلومات حاصل کی تھیں، ان میں سے تقریباً نصف سے زائد کو ایسے مراکز پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا جو افغان پولیس اور نیشنل ڈائریکٹوریٹ فار سکیورٹی کے زیر انتظام ہیں۔ اور باقی نصف کو قابض افواج کے زیر انتظام حراستی مراکز میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے جان کیوبس (Jan Kubis) نے کہا ہے کہ قیدیوں پر غیر انسانی تشدد کے بارے میں حاصل ہونے والی معلومات نہایت ’سنجیدہ خدشات کا
باعث‘ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان حکومت کی طرف سے زیر حراست افراد پر
تشدد کے واقعات روکنے کے سلسلے میں سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔
یاد رہے کہ یہ رپورٹ ایک ایسے وقت پر سامنے آئی ہے جب افغان حکومت مطالبہ کر رہی ہے کہ ملک میں موجود ایسے تمام حراست مراکز کا مکمل کنٹرول افغان حکام کے
حوالے کیا جائے جو اس وقت نیٹو اور دیگر بین الاقوامی قابض افواج کے زیر
کنٹرول ہیں۔