Monday, January 21, 2013

عراق میں اہل سنت مخالف پالیسیوں اور انسداد دہشت گردی قوانین کے خلاف احتجاجی مظاہرے

عراق کے سنی اکثریتی شہروں اور خاص طور پر مغربی صوبہ الانبار میں  ہزاروں افراد مالکی حکومت کی اہل سنت مخالف پالیسیوں اور ملک میں نافذ انسداد دہشت گردی قوانین کے خلاف احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں، شمالی شہر موصل میں احتجاجی ریلی کے دوران ایک شہری نے خود سوزی کر لی۔

عرب زرائع ابلاغ کے مطابق صوبہ الانبار میں ہزاروں مظاہرین نے صوبائی دارالحکومت رمادی کے نزدیک عراق کو اردن اور شام سے ملانے والی مرکزی تجارتی شاہراہ پر دھرنا دے رکھا ہے اور اسے ہرقسم کے ٹریفک کی آمدورفت کے لیے بند کررکھا ہے۔ جبکہ شہروں اور قصبات  میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔

عراق کے شعیہ مسلک سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم وزیر اعظم مالکی کی حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہرے میں ہزاروں افراد شریک ہوئے۔ 

مظاہریں کا کہنا ہے کہ ملک کے موجودہ قوانیں عراق کے اہل سنت کو دبانے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ مظاہرین نے وزیر اعظم نوری المالکی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ عراق کے ایک سنی رکن پارلیمان وحدہ الجمیلی نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''اب گفتگو  کا وقت ختم ہو چکا ہے لہذا حکومت مظاہرین کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے سخت فیصلے کرے''۔

عراق کے اہل سنت نے گزشتہ سال دسمبر میں وزیرخزانہ رافع العیساوی کے محافظوں کی گرفتاری کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع کیے تھے۔ لیکن اب یہ تحریک طول پکڑ چکی ہے۔ مظاہرین وزیر اعظم مالکی سے سیاسی قیدیوں کی رہائی اور انسداد دہشت گردی کے متنازعہ قانون کے خاتمے اور اہل سنت کے علاقوں میں بنیادی شہری سہولتیں مہیا کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ الانبار میں گذشتہ دوہفتوں سے کشیدگی پائی جا رہی ہے اور اس سے وزیر اعظم نوری المالکی کی حکومت کے لیے خطرات پیدا ہو چکے ہیں۔