دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ کے دوران دنیا کے 54 ممالک نے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی مختلف طریقوں سے گرفتار شدگان پر دورانِ حراست تشدد اور غیر قانونی حوالگی میں مدد کی ہے۔
نیو یارک میں قائم امریکی تنظیم اوپن سوسائٹی فاؤنڈیشن نے یہ دعویٰ اپنی گلوبلائزنگ ٹارچر: سی آئی اے سیکرٹ دیٹنشن اینڈ ایکسٹرا اورڈنری رینڈیشن‘ کے نام سے جاری کی جانے والی رپورٹ میں کیا ہے۔ رپوٹ میں سی آئی اے کی جانب سے خفیہ طور پر حراستیں اور
غیر قانونی حوالگی کے بارے میں تحقیق کے نتائج پیش کیے گئے ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق ’حراست کے دوران تشدد اور دوسری خلاف ورزیاں کر کے امریکی حکومت اور اس کے اتحادیوں نے ملکی اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی علاوہ اخلاقی اقدار اور اصولوں کے منافی کام کیا ہے جس کے نیتجے میں بین الاقوامی سطح پر موجود دہشت گردی کے خلاف حمایت ختم ہوچکی ہے
دی اوپن سوسائٹی کی رپورٹ
اوپن سوسائٹی کی یہ رپورٹ اب تک بنائی گئی سب سے موثر اور مکمل رپورٹ ہے جس میں اس مسئلے پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے اور ان ممالک کی ایک فہرست تیار کی گئی ہے جو سی آئی کے ساتھ ان غیر قانونی حراستوں میس شامل رہے اور جنہوں نے مختلف افراد کو مختلف طریقوں سے سی آئی اے کے حوالے کیا۔
سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے غیر معمولی حالات میں حوالگی کی پالیسی کا اعلان کیا تھا جس کے تحت مختلف ممالک بغیر قانونی تقاضوں کو پورا کیے مختلف مطلوب افراد کو امریکہ یا مختلف ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے حوالے کر سکتے تھے جو ان افراد سے بعد میں تفشیش کر سکتی تھیں۔ اس میں اہم بات یہ ہے کہ ان افراد اور ایجنسوں پر امریکی سرزمین پر موجود قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا تھا۔
اوپن سوسائٹی کا کہنا ہے کہ دنیا کے 54 ممالک نے مختلف طریقوں سے ان اقدامات کی حمایت کی ہے، جن میں سی آئی اے نے جیلیں بنائیں جن میں مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کی جاتی تھی، یا ایسی خفیہ پروازوں کی اجازت دی جاتی تھی جن میں خفیہ طور پر مشتبہ افراد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا جاتا تھا یا سی آئی اے کو خفیہ معلومات دی جاتی تھیں۔
رپورٹ میں امریکہ کے قریبی حلیف ممالک کے نام بھی شامل ہیں جیسا کہ پاکستان، افغانستان، آسٹریلیا، برطانیہ، کینیڈا، ڈنمارک، جرمنی، آئرلینڈ، اٹلی، پولینڈ، سپین، ترکی اور تھائی لینڈ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ جنوبی افریقہ کی حکومت کی جانب سے امریکی خفیہ ادارے کو پاکستانی شہری سعود میمن کو اغوا کرنے کی اجازت دی ہیں۔ جنہیں 2003 میں وال سٹریٹ جرنل کے صحافی ڈینئیل پرل کو قتل کرنے کا الزام تھا۔
رپوٹ میں بتایا گیا ہے کہ بظاہر امریکہ کے ساتھ خراب تعلقات کا تاثر دینے والے ایران نے کم از کم 10 مشتبہ افراد کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا ہے جن میں سے اکثریت عرب تھے۔
رپورٹ کے مطابق سی آئی اے نے مختلف افراد کو گوانتانامو بے میں حراست میں رکھا جبکہ اس کے علاوہ افغانستان، پاکستان، لتھوینیا، مراکش، پولینڈ، رومانیہ اور تھائی لینڈ میں بھی ایسی حراست گاہیں تھیں جہاں مختلف افراد کو رکھا جاتا رہا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق دورانِ حراست قیدیوں کو دیواروں سے ٹکرایا جاتا، ان کو تکلیف دینے کے لئے انہیں ان کی رضامندی کے بغیر برہنہ کیا جاتا اور انہیں تھپڑ مارے جاتےکے علاوہ واٹر بورڈنگ کے عمل سے گزارا جاتا ہے جس میں انسان کو احساس ہوتا ہے کہ وہ ڈوب رہا ہے۔
امریکی سینیٹ کی انٹیلیجنس کمیٹی نے گزشتہ دسمبر میں سی آئی کے طریقۂ کار پر چھ ہزار صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ اس رپورٹ کے مندرجات ابھی تک خفیہ رکھے گئے ہیں۔
اسی کمیٹی کی سربراہ سینیٹر ڈائین فیسٹن نے کہا کہ خفیہ حراست خانے اور تشدد آمیز تفتیش ’بہت خطرناک غلطیاں‘ تھیں۔