Tuesday, February 5, 2013

برطانیہ میں ہر پانچ میں سے ایک خاتوں جبری زیادتی کا نشانہ بنتی ہے

 خوتین کے حقوق کے چمپئین کہلانے والے برطانیہ میں گزشتہ سال95 ہزار خواتیں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق  گزشتہ 12 ماہ کے دوران زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کی شرح 2.5 فیصد رہی ہے۔ جو برطانوی آبادی کے مطابق 95 ہزار بنتی ہے، لیکن ان میں سے صرف 0.5 فیصد خواتین نے اس جرم کے خلاف شکایت درج کرائی ہے۔

برطانوی  ادارہ برائے قومی اعدادوشمار نے پہلی دفعہ جنسی زیادتی کے جرائم، پولیس کی کارکردگی، متعلقہ عدالتی نظام اور جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کے رویے کے بارے میں ایک سرکاری رپورٹ جاری کی ہے۔

اس سرکاری رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق ایک سال کے دوران 15620 افراد کے خلاف جنسی زیادتی کی شکایات درج کرائی گئیں ہیں۔ جن میں سے 3850 کیسوں کو پولیس یا کورٹ نے نامکمل شواہد کی وجہ سے ابتداء میں ہی خارج کر دیا تھا۔  صرف 2910 کیسوں پر کورٹ میں کاروائی کی گئی جن میں سے صرف 1070 افراد پر جنسی زیادتی کا جرم ثابت ہونے پر انھیں سزا سنائی گئی ہے۔

 رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ کی ہر 5 میں سے ایک خاتون اس ظلم کا شکار ہوتی ہے جبکہ خواتین اپنے ساتھ ہونے والے اس واقعہ کو پوری زندگی نہیں بھلا پاتی ہیں۔ اسی طرح مخلوط  نظام تعلیم کی وجہ سے ہر7 میں سے ایک طالبہ دوران تعلیم اس ظلم کا نشانہ بنائی جاتی ہے۔ اگرچہ جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی 90 فیصد خواتین اپنے حملہ آور کی شناخت کر سکتی ہیں مگر ان میں سے صرف 15 فیصد ایسے مجرموں کو بے نقاب کرنے کے لیے پولیس میں شکایت درج کراتی ہیں۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہےکہ ایسے کیسوں میں جرم ثابت کرنے میں 700 سے زائد دن یعنی تقریبا 2 سال کا عرصہ لگ جاتا ہے۔ کئی مجرموں کو 16 سال سے کم عمر ہونے کی وجہ سے بھی چھوڑ دیا جاتا ہے۔