Saturday, February 2, 2013

عراق میں وزیر اعظم نوری مالکی کے خلاف اہل سنت کے مظاہرے

عراق میں ہزاروں افراد نے وزیر اعظم نوری المالکی کی حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے ہیں اور ملک کو اردن سے ملانے والی مرکزی شاہراہ کو ایک مرتبہ پھر بند کر دیا ہے ۔

عرب زرائع ابلاغ کے مطابق دارالحکومت بغداد اور وسطی شہر سامراء میں اہل سنت نے حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔ مغربی صوبہ الانبار کے دارالحکومت رمادی اور دوسرے بڑے شہر فلوجہ میں نکالی گئی ریلیوں میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور انھوں نے نماز جمعہ عراق اور اردن کو ملانے والی شاہراہ کے اوپر ہی ادا کی۔

  
 فلوجہ میں مظاہرین نے گذشتہ ہفتے احتجاجی تحریک کے دوران فوج کے ساتھ جھڑپ میں مارے گئے افراد تصاویر اٹھا رکھی تھیں اور وہ حکومت کے خلاف سخت نعرے بازی کر رہے تھے۔  اہل سنت کے ایک عالم دین نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہداء کا خون رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا۔ انھوں نے مظاہرین کی ہلاکتوں میں ملوث فوجیوں کے خلاف مقدمات چلانے کا مطالبہ کیا اور یہ بھی کہا کہ فوج ان کے شہری اور دیہی علاقوں سے نکل جائے۔

دوسری جانب القاعدہ سے وابستہ گروپ ''ریاست اسلامی عراق'' نے اہل سنت کے حکومت کے خلاف مظاہروں کی حمایت کی ہے اور ساتھ ہی ان پر زوردیا ہے کہ وہ وزیر اعظم نوری المالکی کی حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھا لین۔ تنظیم کے ترجمان محمد العدنانی ایک بیان میں اہل سنت سے کہا کہ وہ یا تو اہل تشیع کے سامنے جھک جائیں یا پھر وہ عظمت اور آزادی کی بحالی کے لیے حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھالیں۔

واضح رہے کہ عراق میں دسمبر کے آخر سے وزیر اعظم نوری المالکی کی حکومت کے خلاف اہل سنت کے اکثریتی شہروں اور صوبوں میں احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ مظاہرین عراقی جیلوں میں قید سنیوں کو رہا اور متنازعہ انسداد دہشت گردی قانون کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ قانون ان کے بہ قول حکومت مخالفین کو دبانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔اس جمعہ کو مذکورہ شہروں میں نکالی گئی ریلیوں کے شرکاء کی تعداد حالیہ ہفتوں کے دوران ہونے والے مظاہروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ تھی۔