Wednesday, April 24, 2013

یورپی مسلمانوں کی شام کے جہاد میں شرکت پر حکومتیں پریشان

یورپی یونین کے انسداد دہشت گردی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ یورپ سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں مسلمان  شام میں جاری جنگ میں باغیوں کے ہمراہ صدر بشار الاسد کی فوج کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
 
  برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے انسداد دہشت گردی کے ادارے کا اندازہ ہے کہ شام میں باغیوں کے ہمراہ لڑنے والے یورپی افراد کی تعداد پانچ سو سے زیادہ ہے۔

انٹیلیجنس ایجنسیوں کو خدشہ ہے کہ ان میں سے کئی افراد القاعدہ میں شامل ہو سکتے ہیں اور یورپ واپس لوٹ کر دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہو سکتے ہیں۔

شام میں جن یورپی ممالک کے زیادہ باشندے ہیں ان میں یو کے، آئرلینڈ اور فرانس شامل ہیں۔ یورپی یونین کے انسداد دہشت گردی کے سربراہ گیلس ڈی کارچوو (Gilles de KERCHOVE) نےبرطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’شام جانے سے قبل ان افراد میں سے کسی کا بھی انتہا پسندی کا کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔ لیکن جب وہ واپس آئیں گے تو ممکنہ طور پر وہ انتہا پسندی کی جانب راغب ہو چکے ہوں گے اور تربیت یافتہ بھی ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ لگتا ہے کہ وہ ایک بڑا خطرہ ہوں گے۔‘ بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق یورپ بھر میں انٹیلیجنس ایجنسیوں نے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ برطانیہ اور بیلجیئم میں ایجنسیاں یہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ یہ افراد بھرتی کیسے کیے جاتے ہیں۔ نیدرلینڈز میں حکام نے دہشت گردی کے خطرے کی سطح کو بلند کردیا ہے کیونکہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بشار الاسد کی حکومت کا جلد خاتمہ ہونے جا رہا جس کے بعد یہ لوگ واپس اپنے ملکوں میں پہنچنا شروع ہو جائیں گے۔