Saturday, August 10, 2013

سی آئی اے اور پنٹاگون نے قرار دیا ہے کہ بشار الاسد کا اقتدار برقرار رہنا ہی امریکہ کے مفاد میں ہے

امریکی فوج اور سی آئی اے نے قرار دیا ہے کہ بشار الاسد کا شام میں برسرِ اقتدار رہنا ہی امریکہ کے بہترین مفاد میں ہے۔ دونوں اداروں نے امریکی حکومت کو انتباہ کیا ہے کہ شام میں بشار الاسد کا تختہ الٹے جانے کے نتیجے میں امریکہ کے لیے خطرہ پیدا ہو جائے گا۔

 وال سٹریٹ جرنل کو انٹرویو دیتے ہوئے سی آئی اے کے حال ہی میں مستفیٰ ہونے والے نائب سربراہ مائیکل مارل نے کہا  ہے کہ بشار الاسد کا تختہ الٹنے کی صورت میں شام دہشت گردوں کی آماجگاہ بن جائے گا۔ یہ بھی خدشہ ہے کہ شام میں موجود کیمیائی ہتھیار امریکہ کے دشمنوں کے ہاتھ لگیں گے۔ سی آئی اے کے نائب سربراہ کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ القاعدہ کی فتح کے مترادف ہوگا۔

 انہوں نے مزید کہا کہ شامی باغیوں کی مدد کرنے کی وجہ سے امریکہ کو مستقبل میں سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکہ باغیوں کو جو ہتھیار فراہم کرے گا وہ جلد یا بدیر امریکہ کے خلاف ہی استعمال کئے جائیں گے، جیسا کہ کئی بار ماضی میں ہوا تھا۔

 سی آئی اے کے اول نائب سربراہ مائیکل مورل نے بتایا کہ انہوں نے  اپنے عہدے سے استعفی دینے سے پہلے امریکہ کی سلامتی کو درپیش خطرات کی فہرست تیار کر لی تھی۔ اس فہرست میں ایران، شمالی کوریا، القاعدہ سے لاحق خطرات اور عالمی سائبر جنگ کا خطرہ بالخصوص شامل ہے۔

مائیکل مورل نے کہا کہ یہ تمام خطرات ایک جانب لیکن شام میں بشار الاسد کی حکومت کا ممکنہ خاتمہ امریکہ کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ مورل نے کہا کہ وہ روس کے مشرقی امور کے ماہر "گومر لیسیو" (Gumer Isaev) اس موقف سے متفق ہیں۔  کہ اگر بشار الاسد کا تختہ الٹ دیا گیا تو فاتحوں کے درمیان اقتدار کے لیے کشمکش شروع ہوگی جس کے نتیجے میں  شدت پسند اقتدار میں آ سکتے ہیں۔

صرف سی آئی اے ہی نہیں بلکہ امریکی فوج کی ہائی کمان بھی شام میں مداخلت کے امریکی منصوبے کو مشکوک سمجھتی ہے۔  بری افواج کے سربراہ جنرل رے آدئیرنو کا خیال ہے کہ شام میں اگر بشار الاسد کے فوج کے خلاف آپریش کیا گیا تو بھی باغیوں خصوصا القاعدہ سے منسلک گروپوں کی جانب سے بھی امریکی فوج کو جانی و مالی نقصان کا اندیشہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر شام میں مختصر فوجی آپریشن بھی کیا گیا تب بھی امریکہ کو بہت زیادہ جانی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

امریکی فوج کے سربراہ جنرل مارٹن ڈیمپسی بھی شام میں فوجی مداخلت کے خلاف ہیں۔ ان کے مطابق ایسے آپریشن پر بہت زیادہ رقوم صرف کی جانی پڑیں گی لیکن اس آپریشن کا اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہونا ممکن نہیں نظر آتا۔

 ایک امریکی عسکری پالیسیوں پر اثر انداز ہونے والے ایک تھنک ٹینک نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ شامی باغیوں کی حمایت کر کے امریکہ وہی غلطی دہرا رہا ہے جو وہ اس سے پہلے بھی کئی بار کر چکا ہے۔ گزشتہ صدی کے اسی کے عشرے میں امریکہ نے سوویت یونین کے خلاف لڑنے والے افغان مجاہدین کی مدد کی تھی۔ اندازہ ہے کہ اسی زمانے میں امریکی مخصوص اداروں کے تعاون سے ان لوگوں نے عسکری تربیت اور مہارت حاصل کی تھی  جنہوں نے بعد میں تنظیم القاعدہ تشکیل دی ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ درحقیقت امریکہ کے علاوہ کئی دیگر مغربی ممالک کی پالیسی بھی غیر دوراندیش ہے۔ آج افریقی ملک مالی میں متعین فرانسیسی فوجیوں کو انہی لوگوں کے مقابلے کا سامنا ہے جو لیبیا میں معمر قدافی کی حکومت کے خلاف لڑے تھے اور جنہیں فرانس نے ہتھیار فراہم کئے تھے۔ جنگجوؤں کی بڑی تعداد لیبیا سے شام منتقل ہو چکے ہیں۔ "یوں فرانس مالی میں لیبیا کے بحران کے نتائج کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے لیبیا سے شام منتقل ہونے والے شدت پسندوں کی حمایت کرتا ہے جو بالکل غیرمنطقی رویہ ہے"