کردستان لیبر پارٹی کے ایران میں شعیہ حکومت کے خلاف سرگرم عمل عسکری گروپ "بیجک" نے اپنے جنگجو شامی کردوں کے دفاع کے لیے محاذ جنگ پر روانہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

ایرانی کرد ذرائع کے مطابق "بیجک" شام میں کرد آبادی کے دفاع کے لیے اپنے جنگجو دمشق اور دوسرے شہروں میں بھیجنے کی تیاری کر رہا ہے۔ ادھر شام میں کردوں کے ایک دوسرے ذریعے نے ایرانی کرد جنگجوؤں کی آمد کی خبروں کی تصدیق کی ہے اور انکشاف کیا ہے کہ ایران میں کردوں کے اکثریتی علاقوں کی مساجد میں اعلانات کیے گئے ہیں کہ شامی کردوں کا دفاع ضروری ہے۔ شام میں حالت جنگ میں موجود کردوں کی جانیں بچانے کے لیے دوسرے پڑوسی ملکوں میں موجود کرد آبادی کو ان کے تحفظ کے لیے جنگ میں اترنا اور لڑنا مرنا بھی ضروری ہو گیا ہے۔
"بیجک" ذرائع کا کہنا ہے کہ شام میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کردوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔ ایرانی کرد شہری شام میں اپنے ہم قوم خاندانوں پر حملوں کی نہ صرف مذمت کرتے ہیں بلکہ ان کےدفاع کے لیے جانیں دینے کے لیے تیار ہیں۔ ایرانی کرد جماعت کے ذریعے نے اخبار"الشرق الاوسط" کو بتایا کہ "ہم نے مغربی کردستان میں اپنے مظلوم بہن بھائیوں کی سیاسی اور معنوی مدد کی ہے، لیکن اب ہم ان کے دفاع کے لیے اپنے جنگجو روانہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ہماری تنظیم کے بہادر مجاہد ایک قومی اور انقلابی فوج کی حیثیت رکھتے ہیں اور انہیں شام میں اپنے کرد بھائیوں کی پکار پر بھیجا جا رہا ہے۔ خطے میں جہاں بھی کردوں کے ساتھ زیادتی ہو گی ہم وہاں اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے ضرور پہنچیں گے"۔
ادھر مغربی کردستان میں کردوں کی نمائندہ پیپلز کونسل کے ترجمان شیرزاد الیزیدی نے ملک میں کرد آبادی پر سرکاری فوج اور اسد نواز ملیشیا کے حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔ مسٹر الیزیدی کا کہنا ہے کہ گذشتہ کچھ عرصے سے تل الابیض، الرمیلان اور راس العین میں کردوں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے اسے کردوں کی نسلی کشی کی بدترین مثال قرار دیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کردوں کے دفاع کے لیے سرحد پار سے مدد کے لیے کمک پہنچتی ہے تو ہم اس کا خیر مقدم کریں گے۔ ہم خود بھی آزادی سمیت اپنے تمام حقوق کے حصول لیے کسی قربانی سےدریغ نہیں کریں گے۔
درایں اثناء عراق کے نیم خود صوبہ کردستان کی حکومت نے شام میں صدر بشار الاسد کے خلاف لڑنے والے النصرہ محاذ میں شامل کردوں کو واپس لانے کی کوششیں شروع کی ہیں۔ صوبہ کردستان کے علماء نے بھی اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ کرد جنگجوؤں کو النصرہ محاذ کے پرچم تلے کسی فریق کے خلاف لڑائی میں حصہ نہیں لینا چاہیے اور جو لوگ اس وقت النصرہ بریگیڈ کے ساتھ مل کرلڑ رہے ہیں انہیں واپس آنا چاہیے۔
کچھ اسی طرح کے خیالات کا اظہار شامی باغیوں کی نیشنل کونسل کے سابق سربراہ عبدالباسط سیدا نے بھی کیا ہے۔ ایک بیان میں مسٹر سیدا کا کہنا ہے کہ ہمیں سرحد پار سے جنگجو شام کے میدان جنگ میں اتارنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم حالات کو معمول پر لانے کے لیے محاذ جنگ پرموجود جنگجوؤں سے بھی مسلسل رابطے میں ہیں۔ باہر سے افرادی قوت شام بھیجنے کے بجائے میدان جنگ میں موجود مجاہدین کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے عربوں اور کردوں کے درمیان پائی جانے والی مخاصمت کی تصدیق کی اور تمام فریقین پر صبرو تحمل کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
خیال رہے کہ شام میں کرد آبادی کا ایک بڑا حصہ صدر بشارالاسد کے خلاف جاری عوامی بغاوت میں خاموش رہا ہے تاہم کردوں کے کچھ گروپ باغیوں کی صفوں میں شامل ہو کر اسد نواز ملیشیا کے خلاف لڑائی میں حصہ لے رہے ہیں۔
کرد مذہبی اعتبار سے سنی مسلک سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں ایران ، عراق اور شام کی شعیہ حکومتوں عتاب کا سامنا کرنا پڑھتا ہے
ایرانی کرد ذرائع کے مطابق "بیجک" شام میں کرد آبادی کے دفاع کے لیے اپنے جنگجو دمشق اور دوسرے شہروں میں بھیجنے کی تیاری کر رہا ہے۔ ادھر شام میں کردوں کے ایک دوسرے ذریعے نے ایرانی کرد جنگجوؤں کی آمد کی خبروں کی تصدیق کی ہے اور انکشاف کیا ہے کہ ایران میں کردوں کے اکثریتی علاقوں کی مساجد میں اعلانات کیے گئے ہیں کہ شامی کردوں کا دفاع ضروری ہے۔ شام میں حالت جنگ میں موجود کردوں کی جانیں بچانے کے لیے دوسرے پڑوسی ملکوں میں موجود کرد آبادی کو ان کے تحفظ کے لیے جنگ میں اترنا اور لڑنا مرنا بھی ضروری ہو گیا ہے۔
"بیجک" ذرائع کا کہنا ہے کہ شام میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کردوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔ ایرانی کرد شہری شام میں اپنے ہم قوم خاندانوں پر حملوں کی نہ صرف مذمت کرتے ہیں بلکہ ان کےدفاع کے لیے جانیں دینے کے لیے تیار ہیں۔ ایرانی کرد جماعت کے ذریعے نے اخبار"الشرق الاوسط" کو بتایا کہ "ہم نے مغربی کردستان میں اپنے مظلوم بہن بھائیوں کی سیاسی اور معنوی مدد کی ہے، لیکن اب ہم ان کے دفاع کے لیے اپنے جنگجو روانہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ہماری تنظیم کے بہادر مجاہد ایک قومی اور انقلابی فوج کی حیثیت رکھتے ہیں اور انہیں شام میں اپنے کرد بھائیوں کی پکار پر بھیجا جا رہا ہے۔ خطے میں جہاں بھی کردوں کے ساتھ زیادتی ہو گی ہم وہاں اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے ضرور پہنچیں گے"۔
ادھر مغربی کردستان میں کردوں کی نمائندہ پیپلز کونسل کے ترجمان شیرزاد الیزیدی نے ملک میں کرد آبادی پر سرکاری فوج اور اسد نواز ملیشیا کے حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔ مسٹر الیزیدی کا کہنا ہے کہ گذشتہ کچھ عرصے سے تل الابیض، الرمیلان اور راس العین میں کردوں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے اسے کردوں کی نسلی کشی کی بدترین مثال قرار دیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کردوں کے دفاع کے لیے سرحد پار سے مدد کے لیے کمک پہنچتی ہے تو ہم اس کا خیر مقدم کریں گے۔ ہم خود بھی آزادی سمیت اپنے تمام حقوق کے حصول لیے کسی قربانی سےدریغ نہیں کریں گے۔
درایں اثناء عراق کے نیم خود صوبہ کردستان کی حکومت نے شام میں صدر بشار الاسد کے خلاف لڑنے والے النصرہ محاذ میں شامل کردوں کو واپس لانے کی کوششیں شروع کی ہیں۔ صوبہ کردستان کے علماء نے بھی اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ کرد جنگجوؤں کو النصرہ محاذ کے پرچم تلے کسی فریق کے خلاف لڑائی میں حصہ نہیں لینا چاہیے اور جو لوگ اس وقت النصرہ بریگیڈ کے ساتھ مل کرلڑ رہے ہیں انہیں واپس آنا چاہیے۔
کچھ اسی طرح کے خیالات کا اظہار شامی باغیوں کی نیشنل کونسل کے سابق سربراہ عبدالباسط سیدا نے بھی کیا ہے۔ ایک بیان میں مسٹر سیدا کا کہنا ہے کہ ہمیں سرحد پار سے جنگجو شام کے میدان جنگ میں اتارنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم حالات کو معمول پر لانے کے لیے محاذ جنگ پرموجود جنگجوؤں سے بھی مسلسل رابطے میں ہیں۔ باہر سے افرادی قوت شام بھیجنے کے بجائے میدان جنگ میں موجود مجاہدین کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے عربوں اور کردوں کے درمیان پائی جانے والی مخاصمت کی تصدیق کی اور تمام فریقین پر صبرو تحمل کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
خیال رہے کہ شام میں کرد آبادی کا ایک بڑا حصہ صدر بشارالاسد کے خلاف جاری عوامی بغاوت میں خاموش رہا ہے تاہم کردوں کے کچھ گروپ باغیوں کی صفوں میں شامل ہو کر اسد نواز ملیشیا کے خلاف لڑائی میں حصہ لے رہے ہیں۔
کرد مذہبی اعتبار سے سنی مسلک سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں ایران ، عراق اور شام کی شعیہ حکومتوں عتاب کا سامنا کرنا پڑھتا ہے